السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آغا خانیوں ،قادیانیوں، شیعوں اور عیسائیوں کے ساتھ تعلق رکھنے کے بارے میں کیا ان کے ساتھ کاروبارکرنا لین دین کا سلسلہ کرنا، ان کی دعوتوں پر جانا ان کو اپنے گھر یا ہوٹل پر بلوانا جائز ہے کہ ناجائز ؟
بعض احباب ان کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں آپ بتائیں کہ ہم ان کو کونسی کتب دیں ؟کہ وہ ان سے قطع تعلق کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1۔سوال میں مذکور لوگوں سے تجارتی تعلقات خریدوفروخت یا لین دین کرنے کا کوئی حرج نہیں ،بعض احادیث میں ہے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں سے کاروبار کو روا رکھا ہے بلکہ بذات خود ان سے معاملہ کیا ہے چنانچہ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے:
« ان النبي صلي الله عليه وسلم اشتريٰ طعاما من يهودي الي اجل ورهه درعا من حديد» (1)
( باب من اشتری فی الدین ...وباب من رھن درعہ)
لیکن ان میں بنیادی شرط یہ ہے کہ ان کے حرام کاروبار کو تقویت پہنچانا مقصود نہ ہو۔''بلوغ المرا م'' میں بحوالہ طبرانی اوسط بسند حسن حدیث ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص انگور کاٹنے کے دنوں میں انگور بند رکھے یہاں تک کہ شراب بیچنے والے کے پاس فروخت کرے تو وہ دیدہ دانستہ آگ میں گھسا۔(2) (کتاب البیوع)
اور ''سبل السلام '' میں بحوالہ '' شعب الایمان'' روایت یوں نقل کی ہے:'' جو شخص انگوروں کو بند رکھے یہاں تک کہ کسی یہودی نصرانی کے پاس فروخت کرے جس کی بابت اس کو علم ہے کہ وہ اس کی شراب بنائے گا تو اس نے دیدہ دانستہ آگ دوزخ کی طرف پیش قدمی کی ۔''(3)
البتہ عمومی تجارت حلت اور حرمت کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جو مسلمانوں کے لئے نفع بخش ثابت ہو اس کا جواز ہے اور اگر کسی صورت مسلمانوں پر ضرر کا اندیشہ ہوتو اس سے بچنا چاہیے۔جیسے غیر مسلموں کو اسلحہ وغیرہ کی فروخت ہے۔ اس کے باوجود احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ حتی المقدور ایک مسلم کو چاہیے کہ مسلم سے ترجیحی بنیادوں پر کاروبارکو وسعت دے۔ جب کہ غیر مسلم کا معاملہ ثانوی حیثیت میں رکھے اور جہاں تک دعوتوں وغیرہ کی صورتوں میں ان لوگوں سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی بات ہے سو یہ کسی صورت بھی جائز نہیں قرآن مجید میں ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا عَدُوّى وَعَدُوَّكُم أَولِياءَ تُلقونَ إِلَيهِم بِالمَوَدَّةِ وَقَد كَفَروا بِما جاءَكُم مِنَ الحَقِّ...١﴾... سورة الممتحنة
"مو منو ؛اگر تم میر ی را ہ میں لڑنے اور میری خوشنودی طلب کر نے کے لئے نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بنا ئو تم ان کو دوستی کے پیغا م بھیجتے ہو اور وہ (دین) حق سے جو تمہا رے پا س آیا ہے منکر ہیں۔''
موضوع ہذا پر تفصیلی گفتگو اس سے پہلے ''الاعتصام'' میں شائع ہوچکی ہے۔ان لوگوں کے لئے موضوع سے متعلق جملہ اہل اسلام کی کتابیں مفید ہیں۔بالخصوص تصانیف مولانا ثناء اللہ امرتسری اور علامہ ظہیر اور علامہ رحمت اللہ ہندی کیرانوی بازار میں بہ آسانی دستیاب ہیں۔
2۔ ہر وہ کاروبار جو منشاء شریعت کے منافی ہو اس کو اختیار کرنا حرام ہے۔عام طور پر اصول فساد چار بیان کئے جاتے ہیں۔
1۔ہو وہ شے جو بذاتہ حرام ہو جیسے فتح مکہ کے موقع پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب مردار خنزیر اور بتوں کی خریدوفروخت کو حرام قرار دیا ہے۔(4)
2۔بیاج کی تمام شکلیں حرام ہیں۔ ان کا تعلق قرض سے ہویا بیوع وغیرہ سے۔
3۔غرر کی بے شمار ایسی صورتیں ہیں جن کو محض دھوکے کی بناء پر شریعت نے حرام کیا ہے۔ مثلا دوڑے ہوئے غلام کی بیع (1) یا ہوا میں اڑتے ہوئے پرندوں کی بیع (2) وغیرہ وغیرہ۔
4۔ہر وہ شرط جس کا تعلق ربا اور غرر دونوں سے ہے یا دونوں میں سے کسی ایک سے ہے۔
ان امو ر کی جملہ تفصاصیل معلوم کرنے کے لئے ''کتاب احادیث'' میں '' فرامین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وکتب فقہ '' میں اقوال آثار فقہائے کرام کی طرف رجوع فرمائیں۔
1۔ صحيح البخاري كتاب الجهاد باب ما قبل في درع النبي صلي الله عليه وسلم (٢٩١٦) والمغاذي ر قم الباب (٨٧) ح (٤٤٦٦) عن عائشة رضي الله عنها
2۔ بلوغ المرام رقم ( 804) الطبراني (٦/170‘171) (٥٣٥٢) الاوسط مجمع البحرين (١٩٨٤) الضعيفه (١٢٦٩) فيه الحسن ابن مسلم المروزي التاجر قال الباني :’’ باطل’’ وقال الذهبي :’’ اتي بخبر موضوع في الخمر ’’ ثم زكر هذا الحديث ميزان الاعتدال (١/٥٢٣)
3۔ شعب الايمان (٥/١٧) (٥٦١٨) للبيهقي
4۔ صحيح البخاري كتاب البيوع باب بيع الميتة والاصنام (٢٢٣٦) صحيح مسلم كتاب المساقاة باب تحريم بيع الخمر والميتة والخنزير والاصنام (٤-٤٨)
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب