السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سالانہ اجتماع عام رائے ونڈ سال 1992ء کے موقعہ پر حسب سابق بیعت عام منعقد ہوئی اس کے اختتامی الفاظ تھے۔
'' بیعت کی ہم نے حضرت مولانا محمد الیاس کے ہاتھ پر انعام کے واسطے سے۔''
(واضح رہے کہ یہ بیعت تبلیغی جماعت کے موجودہ امری حضرت مولانا انعام الحسن صاحب نے لی)
دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا اس نوع کی بیعت جس میں فوت شدہ شخص کے ہاتھ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ بیعت ہو قرآن وسنت میں اس کی کیا حیثیت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس قسم کی بیعت امر محدث ہے شریعت اسلامی میں اس کا کوئی وجود نہیں اور نہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنھم اجمعین اور ائمہ دین سے اس کی سند دستیاب ہے۔لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے صحیح حدیث میں ارشاد نبوی ہے:
یعنی '' اللہ تعالیٰ یہود کو برباد کرے انھوں نے اپنے انبیاء علیہ السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔''
یعنی'' جوکوئی دین میں اضا فہ کرتا ہے وہ مردود ہے۔''
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب