سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(177) نبی اور رسول میں فرق

  • 12894
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 6497

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شرعی اعتبار سے نبی اور رسول میں کیافرق ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رب العزت نے اشرف المخلوقات میں سے جس برگزیدہ  کو منتخب فرما کر کائنات کی راہنمائی اور رشد وہدایت کے لئے مبعوث  فرمایا۔شرعی اصطلاح میں وہ'' انبیاء ورسل اللہ'' کے القاب سے موسوم ہیں۔

نبی اور رسول میں فرق کی وضاحت:

نبی اور رسول کے مابین کیا نسبت ہے اس بارے میں اہل علم کی مختلف آراء ہیں:

1۔یہ دونوں مساوی ہیں ۔یعنی'' ہر نبی رسول ہے اور ہر رسول نبی ہے۔''

2۔یہ دونوں متباینین ہیں۔یعنی '' رسول وہ ہے جو جدید شرع لے کر آئے او نبی وہ ہے جو جدید شرع لے کر نہ آئے۔ پس کوئی رسول نبی نہیں اور کوئی نبی رسول نہیں لیکن ہی  قول غیر درست ہے کیونکہ قرآن مجید میں حضرت اسماعیل  علیہ السلام  کے متعلق صاف  تصریح ہے:

﴿وَكانَ رَ‌سولًا نَبِيًّا ﴿٥٤﴾... سورة مريم

'' اور وہ ر سول نبی تھا۔''

اور اس طرح اس سے پہلے '' سورۃ مریم میں ہی حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کے حق میں بھی یہی الفاظ وارد ہوئے ہیں۔

3۔ان دونوں کے مابین عموم خصوص مطلق ہے اکثر علماء کی یہی رائے ہے۔

لیکن بعض کے نذدیک رسول''اعم'' ہے اور نبی '' اخص'' کیونکہ  رسول فرشتہ بھی ہوتا ہے اور انسان بھی ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿اللَّـهُ يَصطَفى مِنَ المَلـٰئِكَةِ رُ‌سُلًا وَمِنَ النّاسِ... ﴿٧٥﴾...سورة الحج

''اللہ تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں میں پیغام رساں چن لیتے ہیں۔''

اور نبی صرف انسان ہی ہوتا ہے۔فرشتہ نہیں پس ہر رسول نبی ہوا لیکن ہر  نبی ر سول نہیں۔کیونکہ بعض رسول فرشتے ہیں۔

اور جمہور کا یہ قول ہے کہ '' نبی اعم اور رسول اخص'' پس ہر ر سول نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں مگر اس صورت میں نبی اور رسول میں کیا فرق ہوگا۔اور ان کی شرعی تعریف کیا ہوگی ؟اس سلسلے میں اقوال مختلف ہیں:

حضرت شاہ عبدالقادر نے '' موضح القرآن'' میں'' سورۃ مریم '' کی  تفسیر میں جمہور کی ترجمانی یوں کی ہے۔''

جن کو اللہ کی طرف سے وحی آئے وہ نبی ہیں۔او ر ان میں سے جو خاص امت یا کتاب رکھتے ہیں وہ ر سول ہیں۔

علامہ بیضاوی اپنی معروف تفسیر'' انوار التنزیل'' (2/210) میں رقم طراز ہیں:

''رسول وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے شریعت جدیدہ دے کر مبعوث فرمایا ہوکہ وہ لوگوں کو اس کی دعوت دے اور نبی اس کوبھی عام ہے اور اس کو بھی جس کو شرع سابق برقرار ر کھنے کے لئے بھیجا گیا ہو جیسے وہ انبیاء بنی اسرائیل جو حضرت موسیٰ  علیہ السلام  وحضرت عیسیٰ  علیہ السلام  کے مابین ہوئے ہیں۔''

شرح فقہ اکبر میں منقول ہے:

''زیادہ مشہور فرق جو ان د ونوں کے مابین ہے وہ یہ ہے کہ نبی رسول سے اعم ہے کیونکہ رسول وہ ہے جو تبلیغ پر مامور ہوا اور نبی وہ ہے جس کی طرف وحی کی جائے خواہ وہ تبلیغ پر مامور ہو یا نہ ہو۔( شرح فقه اكبر ص60قديمي كتب خانه كراچي)

مسئلہ ہذا پر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے '' کتاب النبوات '' (رقم الفصل (١٧) النبوة والرسالة (٢٨١ الي ٢٨٣) میں بڑی عمدہ اور نفیس بحث کی ہے ۔قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں ۔فرماتے ہیں:

'' نبی وہ ہے  جس کو اللہ بتلاتا ہے۔ اور جو کچھ اللہ بتلاتا ہے۔اس کو ہی بتلاتا ہے۔ اب اگر اسی کے ساتھ وہ ایسے شخص کی طرف بھیجا گیا جو کہ حکم الٰہی کامخالف ہے تاکہ اس کو اللہ تعالیٰ کے پیغام کی تبلیغ کرے تو وہ رسول ہے لیکن اگر ااس صورت میں کہ وہ  پہلی ہی شریعت پر عامل ہے اور کسی کی  طرف ا س کو بھیجا نہیں گیا۔جسے وہ اللہ تعالیٰ کی  طرف سے پیغام پہنچائے ،تو وہ نبی ہوگا۔رسول نہیں ارشاد  ربانی ہے:

﴿وَما أَر‌سَلنا مِن قَبلِكَ مِن رَ‌سولٍ وَلا نَبِىٍّ إِلّا إِذا تَمَنّىٰ أَلقَى الشَّيطـٰنُ فى أُمنِيَّتِهِ...٥٢﴾... سورة الحج

'' اور نہیں بھیجا ہم نے  پہلے تجھ سے کوئی رسول اور نہ نبی مگر جس وقت کہ  آرزو کرتا تھا۔ڈال دیتاتھا  شیطان اس کی آرزو مین۔''

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ارسال کا زکر فرما کر جو ہر دونوع کو عام ہے ان میں سے ایک کو بایں طور پر خاص کیا ہے کہ وہ رسول ہے اور یہی وہ رسول مطلق ہے جو اللہ کے مخالفوں کی  طرف تبلیغ رسالت پر مامور ہے جیسے حضرت نوح  علیہ السلام  کے بارے میں صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ وہ پہلے رسول ہیں۔ جو اہل زمین کی طرف مبعوث ہوئے (صحيح البخاري كتاب احاديث الانبياء باب قول الله عزوجل ( ولقد ارسلنا نوحا الي قومه ) (٣٣٤0) اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے پہلے تھے وہ انبیاء تھے جیسے حضرت شیث  علیہ السلام  اور حضرت ادریس  علیہ السلام  اور ان دونوں سے بھی پہلے حضرت آدم  علیہ السلام  جو نبی مکلم تھے ( یعنی ان سے حق تعالیٰ نے کلام فرمایاتھا)

حضرت ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا بیان ہے کہ حضرت  آدم  علیہ السلام  اور حضرت نوح  علیہ السلام  کے مابین دس قرن گزرے ہیں۔( تاريخ الامم والملوك (١/١١١) للطبري عن ابن عباس واسناده صحيح وعن قتادة هكذا) جو سب کے سب اسلام پر تھے۔ان انبیاء پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی تھی۔جس پر یہ خود بھی عمل پیرا ہوتے تھے۔ اور ان مومنوں کو بھی حکم فرماتے تھے۔ جو ان کے پا س تھے کیونکہ وہ سب ان پر ایمان رکھتے تھے۔ ٹھیک اسی طرح جس  طرح کے ایک شریعت والے ان تمام باتوں کو مانتے ہیں جن کی  علماء  رسول کی طرف سے تبلیغ کرتے ہیں۔اور یہی حال انبیاء بنی اسرائیل کا ہے کہ یہ شریعت تورات کے مطابق حکم کرتے تھے۔گویا ان میں سے کسی کی طرف ایک معین واقعہ میں خاص وحی بھی کی جاتی تھی تاہم شریعت تورات میں ان کی مثال اس عالم کی سی ہے جس کو اللہ عزوجل کسی قضیہ میں ایسے معنی سمجھا دیں جو مطابق قرآن ہوں۔

جیسے کہ اللہ جل شانہ نے حضرت سلیمان  علیہ السلام  کو قضیہ کا حکم سمجھایا جس پر انہوں نے اور حضرت داؤد  علیہ السلام  نے فیصلہ کیا تھا۔پس انبیاء  علیہ السلام  کو تو اللہ تعالیٰ بتلاتا اور ان پر امرونہی  اور خبر سے ان کو مطلع فرماتا ہے اور وہ ان لوگوں کو جو ان پر ایمان لاتے ہیں اللہ عزوجل کی طرف سے جو کچھ نازل ہوتا ہے  پہنچاتے ہیں  پھر اگر کفار کی  طرف بھی رسول مبعوث ہوئے تو وہ ان کو بھی توحید الٰہی اور اس وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کی دعوت دیتے ہیں۔نیز یہ ضروری ہے کہ رسولوں کی ایک قوم تکذیب کرے۔اللہ عزوجل فرماتے ہیں:

﴿كَذٰلِكَ ما أَتَى الَّذينَ مِن قَبلِهِم مِن رَ‌سولٍ إِلّا قالوا ساحِرٌ‌ أَو مَجنونٌ ﴿٥٢﴾... سورة الذاريات

''اسی طرح اس سے پہلے لوگوں کے پاس جو رسول آیا تو انہوں نے یہی کہا کہ جادوگر ہے یا دیوانہ ۔''

نیز یہ بھی ارشاد ہے:

﴿ما يُقالُ لَكَ إِلّا ما قَد قيلَ لِلرُّ‌سُلِ مِن قَبلِكَ...﴿٤٣﴾... سورة حم السجدة

''تجھ سے وہی کہیں گے جو سب رسولوں سے تجھ سے پہلے کہہ دیا ہے۔''

وجہ یہ ہے کہ رسول مخالفوں ہی کی  طرف بھیجے جاتے ہیں۔اسی لئے ان کی ایک جماعت ان کو جھٹلاتی  ہے۔

ارشا د  با ر ی تعا لیٰ  ہے :

﴿وَما أَر‌سَلنا مِن قَبلِكَ إِلّا رِ‌جالًا نوحى إِلَيهِم مِن أَهلِ القُر‌ىٰ ۗ أَفَلَم يَسير‌وا فِى الأَر‌ضِ فَيَنظُر‌وا كَيفَ كانَ عـٰقِبَةُ الَّذينَ مِن قَبلِهِم ۗ وَلَدارُ‌ الـٔاخِرَ‌ةِ خَيرٌ‌ لِلَّذينَ اتَّقَوا ۗ أَفَلا تَعقِلونَ ﴿١٠٩ حَتّىٰ إِذَا استَيـَٔسَ الرُّ‌سُلُ وَظَنّوا أَنَّهُم قَد كُذِبوا جاءَهُم نَصرُ‌نا فَنُجِّىَ مَن نَشاءُ ۖ وَلا يُرَ‌دُّ بَأسُنا عَنِ القَومِ المُجرِ‌مينَ ﴿١١٠﴾... سورة يوسف

اور ہم نے جتنے  بھیجے تجھ  سے پہلے  یہی  مرد  تھے  بستیوں  کے رہنے  والوں  سے  کیا  یہ  لو گ  نہیں  پھر  ملک  میں  کہ  دیکھ  لیتے  کیسا  ہو ا انجا م  ان کا  جو ان سے پہلے  تھے اور پر ہیز گا رو ں  کے لیے تو  پچھلا  گھر  بہتر  ہے کیا  اب بھی  تم نہیں  سمجھتے  یہاں  تک  کہ جب  نا امیدہو نے  لگے رسول  اور خیا ل  کر نے  لگے  کہ ان  سے جھوٹ  کہا گیا  تھا پہنچی ان  کو مدد ہما ر ی  پھر  جس کو چا ہا  ہم نے  بچا لیا  اور نہیں  پھیری  جا تی  گنہگا ر  قو م  سے آفت  ہما ر ی ۔اور فر ما یا:

﴿إِنّا لَنَنصُرُ‌ رُ‌سُلَنا وَالَّذينَ ءامَنوا فِى الحَيوٰةِ الدُّنيا وَيَومَ يَقومُ الأَشهـٰدُ ﴿٥١﴾... سورة المؤمن

"ہم مدد کر تے ہیں  اپنے  رسو لو ں  کی اور  ایما ن وا لو ں  کی دنیا  کی زندگانی میں  اور جس  دن  کھڑے  ہو ں  گے  گو اہ ۔

﴿وَما أَر‌سَلنا مِن قَبلِكَ مِن رَ‌سولٍ وَلا نَبِىٍّ إِلّا إِذا تَمَنّىٰ أَلقَى الشَّيطـٰنُ فى أُمنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّـهُ ما يُلقِى الشَّيطـٰنُ ثُمَّ يُحكِمُ اللَّـهُ ءايـٰتِهِ ۗ وَاللَّـهُ عَليمٌ حَكيمٌ ﴿٥٢﴾... سورة الحج

میں اس  امر کی دلیل  ہے  کہ نبی بھی مر سل  ہی ہو تا ہے  لیکن  اطلا ق  کے وقت  وہ رسول  سے مو سو م نہیں  ہو گا کیو نکہ  وہ کسی  قو م  کی طرف  ایسی  با تیں  لے  کر نہیں  بھیجا  گیا  کہ جن سے  وہ  واقف  نہ ہو  بلکہ اہل ایمان  کو ان  بو تو ں  کا حکم  دیتا  ہے جن  کے حق  ہو نے  کو  وہ جا نتے  ہیں  اور نبی  کی یہ نوعیت  ایک  عا لم  کی سی  ہے اسی  لیے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد  فر ما یا کہ 

«المعماء ورثة الانبياء»صححہ ابن حبان والالبانی صحیح ابی دائود کتاب العلم باب فضل العلم (3641) الترمذی (2835) ابن ماجہ (223) ابن حبان (88 ) وقال محققہ الارناووط ''حسن'' وھکذا قال حمزۃ الانظر ااحمد (5/196)

علما ء  انبیاء  علیہ السلام  کے وارث  ہیں  نیز رسول  کے لیے  یہ شر ط  بھی نہیں  کہ وہ شر یعت  لے کر آئے  کیو نکہ  حضرت یو سف  علیہ السلام   با و جو د رسول  ہو نے کہ  حضرت  ابرا ہیم  علیہ السلام  کی ملت  پر تھے  نیز  حضرت  داؤد  علیہ السلام  اور حضرت سلیمان  علیہ السلام  دو نو ں  ہی رسول  تھے اور  شریعت  تو را ت  پر تھے  حق  تعا لیٰ  مؤمن آل  فر عون  کی زبا نی  فر ما تے  ہیں :

﴿وَلَقَد جاءَكُم يوسُفُ مِن قَبلُ بِالبَيِّنـٰتِ فَما زِلتُم فى شَكٍّ مِمّا جاءَكُم بِهِ ۖ حَتّىٰ إِذا هَلَكَ قُلتُم لَن يَبعَثَ اللَّـهُ مِن بَعدِهِ رَ‌سولًا...﴿٣٤﴾... سورة المؤمن

"اور تحقیق  آچکا ہے تما ر ے  پا س یو سف   علیہ السلام   اس سے پہلے  کھلی  با تیں  لے کر  پھر تم  دھو کے ہی  میں رہے  ان چیزوں  سے جو وہ  لا یا یہا ں  تک  کہ جب  مر گیا  تو تم  کہنے  لگے  اللہ  اس  کے بعد  ہر گز  کو ئی رسول  نہ بھیجے گا اور اور مقا م  پر فرمایا :

﴿إِنّا أَوحَينا إِلَيكَ كَما أَوحَينا إِلىٰ نوحٍ وَالنَّبِيّـۧنَ مِن بَعدِهِ ۚ وَأَوحَينا إِلىٰ إِبرٰ‌هيمَ وَإِسمـٰعيلَ وَإِسحـٰقَ وَيَعقوبَ وَالأَسباطِ وَعيسىٰ وَأَيّوبَ وَيونُسَ وَهـٰر‌ونَ وَسُلَيمـٰنَ ۚ وَءاتَينا داوۥدَ زَبورً‌ا ﴿١٦٣ وَرُ‌سُلًا قَد قَصَصنـٰهُم عَلَيكَ مِن قَبلُ وَرُ‌سُلًا لَم نَقصُصهُم عَلَيكَ ۚ وَكَلَّمَ اللَّـهُ موسىٰ تَكليمًا ﴿١٦٤﴾... سورة النساء

ہم نے وحی  بھیجی  تیری  طرف  جیسے  وحی  کی   نو ح  علیہ السلام   پر اور ان  نبیوں  پر جو اس کے بعد  ہو ئے اور  وحی نا ز ل  کی ابرا ہیم  علیہ السلام   اور اسما عیل  علیہ السلام    پر اور  اسحا ق  علیہ السلام  اور یعقو ب  علیہ السلام پر  اور اس کی اولا د  پر اور عیسی ٰ علیہ السلام  پر اور ایو ب  علیہ السلام پر اور یونس علیہ السلام   پر اور  ہا رو ن  علیہ السلام   پر اور سلیما ن  علیہ السلام پر  اور ہم نے دی  داؤدکو  علیہ السلام  زبو ر ( علیہ السلام ) اور بھیجے  ایسے  رسول  جن  کے احوا ل  ہم نے  سنا ئے تجھ  کو اس سے پہلے  اور ایسے  رسول جن  کے احوا ل  تجھ  کو نہیں  سنا ئے  اور  با تیں کیں  اللہ تعا لیٰ  نے مو سیٰ  علیہ السلام   سے بو ل کر ۔

اور " ارسا ل  اسم  عا م  ہے جو ارسا ل  ملا ئکہ  ارسال  ریا ح  ارسا ل  شیاطین  اور ارسا ل  نا ر  سب  پر مشتمل  ہے اللہ تعا لیٰ  فر ما تا ہے :

﴿يُر‌سَلُ عَلَيكُما شُواظٌ مِن نارٍ‌ وَنُحاسٌ فَلا تَنتَصِر‌انِ ﴿٣٥﴾... سورة الرحمٰن

بھیجے  جا تے  ہیں تم  پر آگ  کے شعلے  اور تا نبا  پگھلا  ہوا ۔"

اور ارشا د  ہے :

﴿جاعِلِ المَلـٰئِكَةِ رُ‌سُلًا أُولى أَجنِحَةٍ...١﴾... سورة فاطر

"جس نے ٹھہرا ئے  فر شتے  پیغا م  لا نے  والے جن  کے پر " ہیں "

یہاں  سب فرشتوں  کو رسول  قرار دیا گیا ہے اور لغت  میں اس کو کہتے ہیں  جو رسا لت  کا حا مل ہو اور دوسری جگہ  فر ما یا :

﴿اللَّـهُ يَصطَفى مِنَ المَلـٰئِكَةِ رُ‌سُلًا وَمِنَ النّاسِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ سَميعٌ بَصيرٌ‌ ﴿٧٥﴾... سورة الحج

"اللہ تعا لیٰ  چھا  نٹ  لیتے ہیں  فرشتو ں  اور آدمیوں  میں پیغا م  پہنچا نے  والے ۔اور یہ وہ ہیں  جن  کو وحی  دے  کے بھیجتا  ہے چنانچہ  ار شا د  ہے :

﴿وَما كانَ لِبَشَرٍ‌ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلّا وَحيًا أَو مِن وَر‌ائِ حِجابٍ أَو يُر‌سِلَ رَ‌سولًا فَيوحِىَ بِإِذنِهِ ما يَشاءُ...﴿٥١﴾... سورة الشورىٰ

"اور کسی  آد می کے بس  کی با ت  نہیں  کہ اللہ تعا لیٰ  اس سے  کلا م  کر ے  سوائے  اشا ر ے  کے  یا پردے  کے پیچھے  سے یا  بھیج  دے  کو ئی پیغا م   لانے والا  پھر  پہنچا  دے  اس کو  جو وہ  چا ہے ۔"اور فر ما یا ۔

﴿وَهُوَ الَّذى يُر‌سِلُ الرِّ‌يـٰحَ بُشرً‌ا بَينَ يَدَى رَ‌حمَتِهِ...٥٧﴾... سورة الاعراف

"اور  وہی  ذا ت  ہے کہ چلا تی  ہے ہوا میں خو ش خبری  لا نے  والی  مینہ  سے پہلے  ۔ اور فر ما یا :

﴿أَلَم تَرَ‌ أَنّا أَر‌سَلنَا الشَّيـٰطينَ عَلَى الكـٰفِر‌ينَ تَؤُزُّهُم أَزًّا ﴿٨٣﴾... سورة مريم

"اور  چھو ڑ  رکھے  ہیں ہم  نے شیطا ن  منکرو ں  پر اچھا لتے  ہیں ان  کو ابھا ر  کر ۔ "لیکن  جب لفظ  رسول  اللہ کی  طرف  مضا ف ہواور  رسول اللہ ہا جائے  تو اس سے  یہی  مرا د  ہو گا  جو اللہ کی طرف  سے پیغا م  لے کر آئے  خوا ہ  وہ فر شتہ ہو خوا ہ  بشر  چنا نچہ  ار شا د با ر ی تعا لیٰ ہے :

﴿اللَّـهُ يَصطَفى مِنَ المَلـٰئِكَةِ رُ‌سُلًا وَمِنَ النّاسِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ سَميعٌ بَصيرٌ‌ ﴿٧٥﴾... سورة الحج

اور فر شتے کہتے  ہیں :

﴿يـٰلوطُ إِنّا رُ‌سُلُ رَ‌بِّكَ لَن يَصِلوا إِلَيكَ...٨١﴾... سورة هود

"اے لو ط! ہم  تیر ے  رب  کے بھیجے  ہو ئے ہیں  وہ تجھ  تک  ہر گز   نہ پہنچ  سکیں  گے؛

جب  کہ فر شتوں  ہوا ؤں  اور جنوں  کا ارسا ل  کسی فعل  کی  انجا م  وہی  کے لیے  ہو تا ہے تبلیغ  رسالت  کے لیے نہیں  ۔اللہ فر ما تا ہے :

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اذكُر‌وا نِعمَةَ اللَّـهِ عَلَيكُم إِذ جاءَتكُم جُنودٌ فَأَر‌سَلنا عَلَيهِم ر‌يحًا وَجُنودًا لَم تَرَ‌وها ۚ وَكانَ اللَّـهُ بِما تَعمَلونَ بَصيرً‌ا ﴿٩﴾... سورة الاحزاب

"یا د کرو  اللہ کا احسا ن  جب تم پر فو جیں  چڑھ آئیں  پس  بھیج  دی  ہم نے  ان پر ہوا  اور وہ  فو جیں  جو تم  نے نہیں دیکھیں  اور اللہ دیکھنے   والا  ہے جو کچھ  تم کر تے ہو ۔

پس  اللہ  کے جو  رسول  اس کی طرف  سے امرو نہی  کی تبلیغ  کر تے ہیں عند الا طلا ق  یہی اللہ  کے رسول  ہیں ۔

الغرض ! امام  مو صوف  کے نز دیک  جس اللہ کی طرف سے وحی  آئے  اور وہ مؤمنین  ہی کو احکا م  الٰہی کی  تعلیم  دے وہ نبی  ہے اور جس کی دعوت  کا فرو ں  کے لیے  بھی عا م  ہو تو  وہ رسول  ہے ۔

نبو ت وہبی  شے ہے :

یہ بھی یا د رہے  کہ نبطو ت  کا معنا ئے  حقیقی  شر یعت  میں یہ ہے  کہ:

من حصلت له النبوةجسے (اللہ  کی طرف سے) نبو ت مل جا ئے ۔

نبو ت  کا حقیقی  تعلق  نہ تو  نبی  کے جسم  سے وابستہ  ہو تا  ہے اور نہ  اس کی حالتوں  میں سے کسی حا لت  کے  سا تھ  بلکہ  نبی ہو نے  کی حیثیت  سے اس کا تعلق  اس کے علم سے بھی نہیں ہو تا ۔اصلاً نبو ت  کا کلی  تعلق  اس با ت سے ہو تا  ہے کہ اللہ تعا لیٰ  اسے مطلع  فر ما تے ہیں کہ میں نے تجھے  نبو ت  عطا  کر دی  ہے اس  بنا پر  نبی  کی مو ت  سے نبو ت  کا بطلا ن  لا زم نہیں آتا ۔  جس طرح  کہ نیند  اور غفلت  کے با و جو د  بھی نبو ت  قئم  و دا ئم  رہتی  ہے ۔(فتح الباری :6/361)

قرآن مجید  میں اس کی صراحت  یو ں ہے :

﴿يُنَزِّلُ المَلـٰئِكَةَ بِالرّ‌وحِ مِن أَمرِ‌هِ عَلىٰ مَن يَشاءُ مِن عِبادِهِ...﴿٢﴾... سورة النحل

مختصر  یہ کہ اللہ کے نبیوں  اور پیغمبروں  نےلاعلائے كلمة اللهدین  کی نصرت  و عظمت  اور سر بلندی  کے  لیے  سر دھڑ کی  با ز ی  لگا دی  اور  دنیا  و آخر ت   میں سر خرو  ہو ئے  ۔ ارشاد  با ر ی تعا لیٰ ہے :

﴿كَتَبَ اللَّـهُ لَأَغلِبَنَّ أَنا۠ وَرُ‌سُلى...﴿٢١﴾... سورة المجادلة

پھر وقتی  تقا ضوں  کے مطا بق  ہر ایک  کو منجا نب  اللہ  صحا ئف  و کتب  کی شکل میں کچھ  احکا م  اور موا عظ  ملے  جو  اقوا م  عا لم  کے لیے  تقریب  و  حب  الہیٰ  کا پیغا م  اور جنت  میں تنعم  اور جہنم  سے  تبا عد  کا ذر یعہ  بن  سکتے   تھے  لیکن  یا للا سف ! ان کی حا لت  وہی  تھی  جس  کی تصویر  کشی  فر ما ن  باری تعا لیٰ میں یو ں ہے :

﴿وَما يَأتيهِم مِن رَ‌سولٍ إِلّا كانوا بِهِ يَستَهزِءونَ ﴿١١﴾... سورة الحجر

بہت  کم  با سعادت  اور خو ش  نصیب  تھے  جو حیا ت  مستعاد  اور زندگی  کے مقصد  اعلی  کو سا منے  رکھ  کر پیغمبروں  کی اطا عت  اور اتبا ع میں  راہ  نجا ت  کی تلا ش  میں نکلے  اور صرط  مستقیم  پر گا مزن  رہ  کر جنت  کی نعمتوں  سے بہرہ  ور  ہو ئے اور اکثر یت  اس اطا عت  الٰہی  اور نصرت   واتبا ع  انبیاء  علیہ السلام   سے محروم  رہی  بلکہ  انہوں  نے  عداوت  مخا لفت  بے  جا ضد   اور ہٹ  دھرمی  کا را ستہ  اختیا ر  کیا  دوسری  طرف   کتب  سما ویہ  کی مخا فظ  و نگرا ن  بھی  یہی  امم  قرار  پا ئیں ۔بما الستحفظوا من كتاب الله

جس  کا نتیجہ  یہ نکلا  کہ وہ  کتب  تحر یف  و تبد یل  اور  تغیر  سے سلا مت  نہ رہ  سکیں ۔

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص476

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ