السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایڈیٹر ہفت روزہ الاعتصام لاہور:
السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ ! مزاج اقدس ۔ما بخیر وشما سلامت !
عرض خدمت ہے کہ جناب سید محمد متین ہاشمی صاحب کی ادارت میں شائع ہونے والا موقر جریدہ سہہ ماہی '' منہاج'' راقم کے زیر مطالعہ ہے جو شمارہ 1۔2۔ج9 نفاذ شریعت نمبر کے ص 109 میں پارلیمنٹ اور اجتہاد کے مقالہ نگار محترم ڈاکٹر محمود الحسن عارف صاحب رقمطراز ہیں:
''ہندوستان'' میں اہل حدیث حضرات نے بھی ''اجتہاد'' کو اپنانے اور اس کے مطابق فیصلہ کرنے کی کاوشیں کی ہیں لیکن ان کی یہ کاوشیں بھی بالآخر ایک مسلک اور نقطء نظر تک محدود ہو کر رہ گئیں۔اور اجتہاد وقیاس کے اصول اور قواعد اور دیگر مجتہدین کی کتب سے کم علمی اور کسی قدر تعصب کی بنا پر ان کا بھی ایک خاص حلقہ یا مسلک بن گیا ہے۔ جو نسلا ً بعد نسل آگے متوارث ہورہا ہے۔اور ''تقلید'' کی شدو مرد سے تردید بلکہ خدمت کے باوجود اور خود بھی عملاً مقلد ہوکر رہ گئے ہیں۔''
اس میں مقالہ نگار موصوف نے چند الزامات عائد کیے ہیں:
1۔اہل حدیث حضرات کی اجتہادی کاوشیں ایک خاص مسلک اور ایک خاص نقطہ نظر تک محدود ہیں۔
2۔اہل حدیث حضرات قیاس واجتہاد کے مسلمہ اصول وضوابط کو تعصبانہ نظر سے دیکھتے ہیں۔
3۔ اہل حدیث دیگر مجتہدین کی کتب سے کم ہی استفادہ کرتے ہیں لیکن وہ بھی بربنائے تعصب۔
4۔ مزید برآں اہل حدیث حضرات تقلید کی شدید مخالفت کے باوجود در حقیقت عملا ً مقلد ہوکررہ گئے ہیں۔محترمی ! دیئے گئے الزامات کس حد تک درست ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح ہوکہ اہل حدیث کا انتساب کسی خاص فرد یا بستی وغیرہ کی طرف نہیں کہ ان کی اجتہادی کاوشوں اور جملہ جدوجہد کو محدود قرار دیا جاسکے بلکہ ان کے مساعی جمیلہ کامحور اور زندگی کا مشن ہی کتاب وسنت کی ترویج واشاعت اور رب کے دین کی سر بلندی ہے۔جس میں مسلمانان عالم کا ایک ایک فرد شریک وسہیم ہونے کی اہلیت رکھتا ہے۔اصلاً اہل حدیث ایک تحریک کا نام ہے۔ مخصوص گروہ بندی کا نہیں اس مسلک کا خاصہ ہے کہ بلا امیتاز رنگ ونسل اور قبائلی عصبیت کے ہر ایک صاحب وجذبہ وہمت کی مثالی وصحیح تربیت گاہ اور انسانیت کی معراج کا زینہ ہے۔ جس سے وابستہ مردوزن با آسانی اپنے رب سے قرب حاصل کرنے کا اہل بن جاتا ہے۔
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب