السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
یہا ں ایک مرزائی وکیل یو سف قمر نا می کی شا دی ہو ئی با را ت قصور سے ربوہ گئی قصو ر کے بعض مسلما ن وکلا ء اور بعض دیگر معززین نے با را ت میں شر کت کی ربوہ پہنچ کر با قا عدہ تقریب نکا ح منعقد ہو ئی جس میں ایک نو جوا ن مر زائی نے اعلا ن کیا کہ ہما ر ے وہ بز ر گ ابھی نہیں پہنچے جنہوں نے نکا ح پڑھا نا تھا اس لیے ان کی نیا بت میں میں یہ فریضہ انجا م دے رہا ہو ں یہ اعلا ن کر کے اس نے خطبہ نکا ح پڑھا اور اعلا ن کیا کہ میں فلاں ولد فلا ں کا فلا نہ بنت فلا ں کے ساتھ اتنے ہزار رو پے حق مہر کے عوض نکا ح کر تا ہو ں اس طرح اس نے دو نکاہو ں کا اعلا ن کیا جو کہ یو سف قمر مذکو ر نے خو د (اصا لتاً) اور دوسرے لڑکے کی طرف سے ایک شخص (غا لباً) اس کے بعد ایک بو ڑ ھے مر زا ئی نے دعا کرائی جس کی اقتدا ء میں تما م حا ضر ین (مسلما ن و مرزا ئی ) نے دعا ما نگی ۔دوسرے روز یو سف مذکو ر نے قصو ر میں دعوت ولیمہ دی اس دعوت میں بھی بعض مسلما ن وکلاء اور بعض دیگر معززین نے شر کت کی شر یک تقر یب کچھ صاحبان سے استفسار کیا گیا کہ آپ نے ایک مرزا ئی کی شا دی میں شر کت کی اور دعوت ولیمہ کھا ئی تو ان میں سے بعض حضرات نے تو روا داری اور مرو ت جیسے الفا ظ کا سہا را لیا اور بعض نے کہا کہ وہا ں کا م تو مسلما نوں کی طرح ہو ئے ہیں یہی کلمہ یہی خطبہ نکا ح یہی حق مہر وغیرہ آخر اس تقر یب میں شر کت کس طرح نا جا ئز ہو گئی ؟ براہ کر م ! ان مسلما نو ں کے متعلق شر عی حکم تحر یر فر ما ئیں نیز با لخصوص مرزائیوں کی شا دی غمی کی تقر یبا ت میں شمو لیت اگر منع ہے تو کیوں ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امت مرزائیہ بلا شبہ کا فر اور خا ر ج از اسلا م ہے اس سے تعلقات قا ئم کر نا اور اس کی خو شی غمی میں شر یک ہو کر الفت و محبت کا اظہا ر کر نا قطعاً ممنو ع ہے قرآن مجید میں ہے :
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا عَدُوّى وَعَدُوَّكُم أَولِياءَ...١﴾... سورة الممتحنة
"میر ے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بنا ؤ تم تو ان کو دوستی کے پیغام بھیجتے ہو اور وہ (دین ) حق سے جو تمہا ر ے پا س آیا ہے منکر ہیں۔''
واضح ہو کہ دیگر مسا ئل کے علا وہ "عقیدہ ختم نبو ت اسلا م میں بنیا دی حیثیت رکھتا ہے اس پر علم و عمل کے بغیر کسی بھی فر د کے لیے اسلا م کی طرف انتسا ب ممکن نہیں جب کہ یہ قا د یا نی گرو ہ میں مفقو د ہے بلکہ انہوں نے اس کے با لمقا بل غلا م احمد کی خو د سا ختہ نبو ت کا ڈھو نگ رچا یا جو سرا سر اسلا م کے خلا ف بغا و ت و ارتداد ہے آہ!آج اس کی بیخ کنی کے لیے خلیفہ اول حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی بلند ہمت و عزیمت شخصیت کی ضرورت ہے جو عا لم اسلا م کے اکنا ف و اطرا ف سے فتنہ ہذا کو جڑوں سے اکھا ڑ پھینکے ۔
﴿لَعَلَّ اللَّـهَ يُحدِثُ بَعدَ ذٰلِكَ أَمرًا ﴿١﴾... سورة الطلاق
اسی طرح مسند احمد میں حدیث ہے :جب تم متشابہ آیتوں کے پیچھے جا نے والو ں کو دیکھو تو ان سے بچو اور مشکو ۃ میں بحو الہ بخا ر ی و مسلم الفا ظ یوں ہیں کہ :
« فاذا رايت» وعند مسلم « رايتم الذين يتبعون ما تشابه منه فاولئك الذين سماهم الله فاحذروهم » صحيح البخاري كتاب التفسير باب (منه آيات محكمت ........) صحيح مسلم كتاب العلم باب النهي عن اتباع متشابه القرآن.....(٦٧٧٥) (ص150مع المرعاۃ)
امام نو وی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں کہ اس حدیث میں میں اہل زیغ اہل بدعت اور وہ شخص جو فتنہ بر پا کر نے کے لیے مشکلا ت (متشابہ ) کی پیرو ی کرتا ہے ان کی میل ملا قا ت سے منع کیا گیا ہے اور اگر کو ئی مشکل مسئلہ سنجید گی سے حل کرا نا چا ہتا ہو تو اس کا جوا ب اور ممکنہ حد تک تشفی واجب ہے جہا ں تک پہلے گرو ہ کا تعلق ہے اس کی طرف التفا ت کی ضرورت نہیں بلکہ یہ مستو جب سزا ہے اس سے معلو م ہوا کہ مرزائیوں وغیرہ سے رشتہ نا طہ اور ہر قسم کا میل ملا پ رکھنا نا جا ئز اور غیر درست فعل ہے نیز اس با ت سے دھو کا نہیں لگنا چا ہیے کہ ان لو گو ں کے عقد زواج کا طو ر طریقہ مسلما نو ں جیسا ہے لہذا یہ مسلام ن ہیں ہر گز نہیں جہاں بنیا د نہ ہو وہا ں شا خ کی کو ئی اہمیت نہیں ہو تی ۔
’’اعاذنا الله من هذه الفتنة!
اور جو مسلما ن اس عقد میں شر یک ہو ئے انہیں نا صحا نہ اندا ز میں وعظ و نصیحت ہو نی چا ہیے
﴿وَذَكِّر فَإِنَّ الذِّكرىٰ تَنفَعُ المُؤمِنينَ ﴿٥٥﴾... سورة الذاريات
اس کے با و جو د اگر وہ پھر بھی حرکا ت شنیعہ سے با ز نہ آئیں تو ان کا با ئیکاٹ کیا جا ئے ۔
﴿وَاللَّـهُ يَهدى مَن يَشاءُ إِلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ ﴿٢١٣﴾... سورة البقرة
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب