السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حدیث شریف میں دنیا کو ملعون کہا گیا(1) بلکہ مردار اور اس کو چاہنے والے کتے (2)مگر اس عالم اسباب میں اس کے بغیر گزارہ بھی نہیں دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک مسلمانوں سے چندہ صدقات وخیرات کی اپیل کی جاتی رہی ہے۔ بلکہ آج کل تو مذہب کےنام پر مانگنے کی خوب دوڑ لگی ہوئی ہے۔اس تضاد کی تشریح یا تاویل کیسے ممکن ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دنیا قابل مذمت اس وقت بنتی ہے۔ جب اللہ سے دوری کا سبب بنے اور جب اس کو راہ للہ صرف کرکے قرب الٰہی کی سعی کی جائے تو یہ باعث افتخار ہے۔ جس طرح کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے متعدد واقعات ہمارے سامنے ہیں۔مثلا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انفاق میں سبقت لے گئے۔(3) اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ تبوک کے موقع پر مال خرچ کرکے ''الدرجات العلیٰ'' کے وارث بنے۔(4)
1۔ حسنہ الترمذی والالبانی صحیح الترمذی ابواب الذھد باب ماجاء فی ھوان الدنیا علی اللہ (2438) ابن ماجہ (4112)
2۔ کشف الخفا(1313) وقال: الصنعانی موضوع اقوال وان کان معناہ اصحیحا لکنہ لیس بحدیث وقال النجم لیس بھذا الففظ فی المرفوع (1/49)
3۔ کتاب السنةلابن ابي عاصم رقم (١٢٤-) بتحقيق الالباني
4۔ حسنه الترمذي والباني المشكاة (٦-٦٤)صحيح الترمذي ابواب المناقب باب في مناقب عثمان (٣٩٦٧) عن عبدالرحمٰن بن سمرة
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب