السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اسی طرح وہ چند ایک احادیث بھی پیش کرتے ہیں مثلا صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئیں اور ان سے اپنے والد کی جائیداد کا حصہ طلب کیا۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جائیداد تو صرف مساکین اور غرباء کے لیے ہوتی ہے۔ تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ناراض ہوگئیں۔(1) اس کو دلیل بنا کر پھر وہ فرماتے ہیں۔ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ناراض کیا اس نے مجھ کو ناراض کیا تو ایسی باتوں کا جواب کیا ہوگا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
فتح الباری می ہے کہ حضرت ابو بکر صدیقو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعد میں فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو راضی کرلیا تھا اور جہاں تک میراث کا تعلق ہے سویہ بات ثابت شدہ ہے کہ انبیاء علیہ السلام کی میراث جاری نہیں ہوتی۔(2) اگر اس کا کوئی وجود ہوتا تو پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے زمانہ خلافت میں اپنا حق ضرور وصول کرلینا چاہیے تھا۔ جب کہ واقعاتی طور پر یہ بات ثابت نہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف حق پر مبنی تھا جسے بعد میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے لئے اسوہ حسنہ سمجھا۔
3۔ صحيح البخاري كتاب فرض الخميس باب فرض الخمس (٣-٩٣) والفرائض باب قول النبي صلي الله عليه وسلم :(لا نورث ماتركنا صدقة (٦٧٢٦)
4۔ انظر قبل هذا
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب