السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک اسلامی اسکالر کا کہنا ہے کہ نکاح دو فریقین کے درمیان ایک معاہدہ جیسا ہے۔ لہٰذا ایک لڑکی یا س کے گھر والوں کو یہ شرعی حق حاصل ہے کہ اگر وہ چاہیں تو نکاح نامے میں یہ ’’شرط‘‘ شامل کروا سکتے ہیں کہ لڑکا اس بیوی کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کرے گا۔ اور اگر لڑکا اس شرط کو مان لے تو پھر وہ اس بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی نہیں کرسکتا۔ موصوف کا کہنا ہے کہ شادی بیاہ میں فریقین اپنی پسند کی کوئی بھی شرط لکھوا سکتے ہیں بشرطیکہ وہ شرط کارفرائض سے روکنے اور کار حرام کو کرنے سے متعلق نہ ہو۔ چونکہ دوسری شادی کرنا فرض نہیں ہے، لہٰذا پہلی بیوی نکاح نامے میں یہ شرط شامل کرواسکتی ہے اور شوہر کے مان لینے کی صورت میں شوہر بیوی کی زندگی میں دوسری شادی نہ کرنے کا پابند ہوگا۔
کیا یہ شرط ایک جائز کام کو اپنے اوپر از خود حرام کرلینے کے مترادف نہیں ہے؟ کیا کوئی شخص (ہونے والی) بیوی کی فرمائش پر اپنے اوپر اس قسم کی پابندی لگا سکتا ہے ؟ مثلا" اگر کوئی لڑکی یہ کہے کہ مجھے شہد کی بو پسند نہیں لہٰذا شادی کے بعد تم شہد نہیں پیوگے تو کیا مرد اس شرط کو تسلیم کرکے اپنے اوپر شہد کو حرام کرسکتا ہے؟۔ازراہ کرم تسلی بخش جواب مطلوب ہے۔
نکاح میں کوئی بھی ایسی شرائط جو شریعت کے خلاف نہ ہو ، دونوں فریق کی طرف سے لگائی جاسکتی ہیں۔ چونکہ نکاح میاں بیوی کے اکٹھے زندگی گزارنے کا ایک معاہدہ ہوتا ہے۔اور وہ دونوں اپنی اپنی طبیعت اور رجحان کے پہلو سے ایک دوسرے کو کسی بھی شرط پر مطمئن کرلیں تو اس میں شریعت کوئی قدغن نہیں لگاتی۔
مذکورہ بالا مسئلہ کہ ’’ اگر کوئی عورت نکاح میں یہ شرط رکھے کہ میں تب تم سے نکاح کروں گی اگر تم دوسری شادی نہ کرواؤ گے‘‘ کیا اس کی یہ شرط باندھنا درست ہے؟
سب سے پہلے کسی بھی شرط کو دو طرح سے دیکھا جائے گا کہ
1۔وہ شرط اللہ کے حلال کردہ کو حرام تو نہیں ٹھہرا رہی
2۔ شرط انسانی غیرت و حمیت اورانس و محبت سے تعلق رکھنے والی مستحبہ چیز تو نہیں جس کا چھوڑنے کی شرط لگائی جارہی ہے اور یہ شرط محدود وقت تک ہو۔
1۔اگر تو ایسی چیز ہے کہ جس کے ترک کرنے سے کسی حلال کو حرام ٹھہرایا جارہا ہے اور وہ بھی ہمیشہ کے لیے اپنے آپ پر حرام کرنا جیسا کہ نبیﷺ نے ازواج مطہرات کے کہنے پر شہد کو اپنے آپ پر روک لیا تھا تو یہ آیت اتری :
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ (التحریم:1)
’’اے نبی! کیوں آپ نے اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام ٹھہرایا اپنی بیویوں کی رضا کی خاطر‘‘
لہٰذا اس طرح کی اشیاء کہ جس میں اللہ کی حلال کردہ حرام میں بدل جائے یہ درست نہیں او رنہ ہی ان چیزوں کی قسم کھانا اور معاہدہ کرنا جائز ہے۔
2۔وہ اشیاء کہ جو مستحب ہوں اور غیر ت وحمیت اور محبت کی خاطر خاص مدت کے لیے شرائط یا معاہدہ میں باندھ لی جائیں وہ درست ہیں۔ جس طرح کہ حضرت علی نےابوجہل کی بیٹی سے شادی کرنا چاہی اور فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے عقد میں تھیں تونبیﷺ نے فرمایا:
إن فاطمۃ منی وأناأ تخوف أن تفتن فی دینھا وإنی لست أحرم حلالا ولا أحل حراما ولکن واللہ لا تجتمع بنت رسول اللہ و بنت عدواللہ۔ (صحیح بخاری :3109)
’’بے شک فاطمہ رضی اللہ عنہا مجھ سے ہے اور میں اس کے دین میں فتنہ میں پڑ جانے سے ڈرتا ہوں اور میں حلال کو حرام او رحرام کو حلال نہیں ٹھہرا رہا ،لیکن اللہ کی قسم اللہ کے دشمن کی بیٹی اور رسول اللہ ﷺ کی بیٹی اکٹھے نہیں ہوسکتے۔‘‘
گویا دوسری شادی کرنا چونکہ مباح تھا او رآپﷺ نے غیرت میں یہ پسند نہ کیا او رحضرت علی کو روک دیا۔
اس پر قیاس کرتے ہوئے آج بھی اگر کوئی عورت دوسری شادی نہ کرانے کا معاہدہ یا شرط لگائے تو جائز ہے کیونکہ یہ حلال کو حرام ٹھہرانے کے زمرے میں نہیں آتا۔
وبالله التوفيق