سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(85) آپﷺ کی قبر پر درود پڑھنا

  • 12811
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1517

سوال

(85) آپﷺ کی قبر پر درود پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی قبر مبارک پر ''الصلاة والسلام عليك يا رسول الله ! ’’ كہنا جائز ہے یا نہیں؟

اگرکوئی آدمی اپنے تخیل میں اپنے گھر بیٹھا یا رسول اللہ کہہ لے اور عقیدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سماعت کا نہ ہو تو اس میں کیا حرج ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ الفاظ کسی مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہیں۔البتہ ابن عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے فعل سے منقول ہے کہ جب وہ سفر سے واپس آتے تو یوں  کہتے:

’’ السلام عليك يا رسول الله (صلي الله عليه وسلم)! السلام عليك يا ابا بكر ! السلام عليك يا ابتاه ّ!( موطا لامام مالک کتاب الصلاۃ باب ماجاء فی الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم (397)

پھر فوراً واپس چلے آتے اور عام حالات میں بلا سفر ان کا یہ معمول نہ تھا۔ جبکہ جمہورصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  ہر حالت میں اس پر عامل نہیں تھے۔در اصل اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات گرامی پر د رود وسلام الفاظ مسنونہ سے بھیجنا مطلقاً مسنون ہے  خواہ کوئی قریب سے پڑھے یا دورسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہر حالت میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  تک پہنچا دیاجاتا ہے۔ اور بدعی الفاظ سے اجروثواب کی توقع عبث ہے:

'' کل بدعة ضلالة’’ صححه ا بن حبان والالباني وحمزة وبشارعواد وشعيب الارنوؤط احمد (٣/310) وغيره

اور تخیلی حالت میں یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کہنا سلف صالحین سے ثابت نہیں ہوسکا ۔حالانکہ ان چیزوں کے وہ ہم سے زیادہ حقدار تھے از لیس فلیس البتہ طور حکایت جائز ہے۔جس طرح کہ ہم دن رات کتب احادیث میں پڑھتے ہیں۔تاہم حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کامذکور فعل محض تعبدی تعمیل حالت پر محمول ہوگا۔جس طرح کہ :«السلام عليك يا اهل القبور» میں ہے۔ اس سے سماع لازم نہیں آتا۔جیسا کہ حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے حجر اسود کو مخاطب ہوکر فرمایا تھا:«اني لاعلم انك حجر» ( صحيح مسلم كتاب الحج باب استحباب تقبيل الحجر الاسود في الطواف (3067) یہ محض بدون سماع حکم کی تعمیل ہے۔

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص262

محدث فتویٰ

تبصرے