السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فر ما تے ہیں علما ئے دین اس مسئلے میں کہ ازوئے شر ح کیا کسی مسلما ن جوا ن عورت کو غیر مسلم مر د ججوں کی جیو ری میں شا مل ہو کر عدا لتی فیصلے کر نے کی اجا ز ت ہے یا نہیں ؟ جب کہ وہ عورت قا نو ن اور شر یعت کا علم بھی نہ رکھتی ہو ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شرعاً عورت کے لیے ویسے ہی جا ئز نہیں کہ عہد قضا ء پر فا ئز ہو چہ جا ئیکہ غیر مسلم ججوں کے سا تھ بیٹھ کر فیصلے کر ے مز ید آنکہ قا نو ن و شر یعت سے عد م وا قفیت بھی اہم تر ین موا نع سے ایک ما نع سے ایک ما نع ہے اہل علم کا اس با ت پر اتفا ق ہے کہ عورت قصاص وحدود میں گواہی نہیں دے سکتی تو پھر وہ جج کیسے بن سکتی ہے ؟ فتح البا ری 5/266میں حا فظہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔
واطلق ابن جرير وحجة الجمهور الحديث الصحيح ;« ما افلح قوم ولوا امورهم امراة » وقد تقدم ولان القاضي يحتاج الي كمال الراي وراي المراة ناقص ولا سميا في محافل الرجال ’’
اہل علم کا اس با ت پر اتفا ق ہے کہ جج کے لیے مرد ہو نا شر ط ہے سوائے حنفیہ کے انہوں نے ۔
حدود کو مستثنیٰ قراردیا ہے (یہ مر د کے سا تھ مخصوص ہیں البتہ ما لی معاملات میں حنفیہ کے نز دیک عورت کی قضا ء جا ئز ہے ) اور ابن جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نز دیک علی الا طلا ق جوا ز ہے جمہو ر کی دلیل صحیح حدیث ہے کہ جو قو م اپنے معا ملا ت کا ذمہ دار عورت کو بنا دے وہ نا کا م ہے (نظرالرقم المسلسل)(232)اور اس لیے بھی کہ جج کو کما ل را ئے کی ضرورت ہو تی ہے جب کہ عورت کی را ئے نا قص ہے با لخصوص مردوں کی محا فل میں ۔
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب