السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کہا جاتا ہےکہ جب کوئی آدمی جمعہ کی رات یاجمعہ کے دن فوت ہوجائے تو اللہ عزوجل اس سے قیامت تک کا عذاب ہٹا لیتا ہے۔یہ مسئلہ کیا درست ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جمعہ کی رات یا دن موت کی فضیلت کے بار ے میں وارد روایات ضعیف ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری کے ''کتاب الجنائز'' کے اختتام پرحضرت عبدا للہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث:
«ما من مسلم يموت يوم الجمعة او ليلة الجمعة الا وقاه الله فتنة القبر »حسنه البانی بشواهده المشکاة (1367)
یعنی '' جومسلمان جمعہ کے دن یاجمعہ کی ر ات فوت ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عذاب قبر سے محفوظ فرما لیتا ہے۔''
نقل کرنے کے بعد رقم طراز ہیں:
في اسناده ضعف واخرجه ابو يعلي من حديث انس نحوه واسناده اضعف ’’
یعنی ''اس کی سند میں ضعف ہے۔اور اس کی مانند حدیث ابو یعلیٰ نے بھی حضرت انس سے بیان کی ہے لیکن اس کی سند اس سے بھی زیادہ کمزور ہے۔''
مذکورہ حدیث کے بارے میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
هذا حديث غريب وليس اسناده بمتصل وبيعة بن سيف انما يروي عن ابي عبد الرحمٰن الحبلي عن عبدا لله بن عمر و ولا تعرف لربعة من سيف سماعا من عبدالله بن عمرو ’’
''یعنی یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند متصل نہیں ربیعہ بن سیف کی روایت تو عبد اللہ بن عمرو سےابو عبد الرحمٰن حبلی کے واسطہ سے ہے۔ربیعہ بن سیف کا سماع عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے معلوم نہیں ہوسکا۔۔
باب ما جاء فيمن يموت يوم الجمعة
شارح ترمذی علامہ مبارک پوری فرماتے ہیں:
فالحديث ضعيف لانقطاعه لكن له شواهد
''پس انقطاع کی بنا پر حدیث ضعیف ہے لیکن اس کے کچھ شواہد ہیں۔''
پھرعلامہ سیوطی سے بحوالہ ''مرقاۃ'' کچھ آثار وشواہد نقل کئے ہیں۔(تحفہ الاحوذی :4/ 188) بہرصورت ان آثار کی صحت یاقابل صحت ہونا مشکوک ہی نظر آتا ہے جب کہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت بھی رطب ویابس جمع کرنے میں معروف ہے مجھے اس وقت سخت تعجب ہوا جب میں نے استاد محترم مفتی محمد عبدہ صاحب مدظلہ العالی کی کتاب ''احکام الجنائز'' کا مراجعہ کیا تو اس کے حواشی میں بحوالہ تحفہ فرماتے ہیں:
مسند احمد وترمذي وله شواهد فالحديث بمجموع طرقه حسن او صحيح ’’
یعنی''عبدا للہ بن عمرو کی روایت مسنداحمد اور ترمذی میں ہے اور اس کے کچھ شواہد بھی ہیں۔پس حدیث مجموع طرق کے اعتبار سے حسن یاصحیح ہے۔''
دراں حالیکہ مذکور عبارت محل مقصود میں قطعاً نہیں ہے۔البتہ ایک دوسرے مقام پر علامہ موصوف فرماتے ہیں:
یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے۔لیکن اس کی تائید متعدد حدیثوں سے ہوتی ہے۔''(فتاویٰ ثنائیہ:2/25)
گویا کہ موصوف کا رجحان اثبات مسئلہ رفع عذاب کی طرح ہے لیکن اس بارے میں درجہ حجت واستدلال کاحصول ایک مشکل امر ہے۔اور یہ بات مسلمہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال سوموار کے روز ہوا تھا۔ اورحضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرض الموت میں اسی تمنا کا اظہار کیا تھا۔ اس پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں تبویب یوں قائم کی ہے :''باب موت یوم الاثنین '' صحيح البخاري كتاب الجنائز رقم الباب (٩٤)
شارحین حدیث نے لکھا ہے : اس سے مصنف کا مقصود جمعہ کی فضیلت کے بارے میں وار حدیث کی تضعیف ہے۔
واقعاتی طور پر وفات کا جو دن اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کےلئے منتخب اور پسند فرمایا وہی افضل اور بہتر ہونا چاہیے۔ اسی بناء پر خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دن موت کی چاہت کی تھی۔
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب