سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(69) میت کے بارے میں سوالات

  • 12792
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1344

سوال

(69) میت کے بارے میں سوالات

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

1۔دفنانے کے بعد روح اپنا وقت آسمان پر گزرتی ہے یا قبر میں یا  دونوں جگہ؟

2۔موت کے بعد غسل جنازے اور دفن ہونے تک انسانی روح پر کیا  بیتتی ہے۔اس کے کیا احساسات ہوتے ہیں۔

3۔کیا وہ رشتہ داروں کو دیکھتا اور ان کی آہ بکا کو سنتا ہے جسم کو چھونے سے اسے  تکلیف ہوتی ہے یانہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔قبر میں بعد از سوال مومن کی روح علیین میں اور کافر کی سجین میں چلی جاتی ہے۔لیکن ہر روح کامستقر سے معنوی اتصال بدستور قائم رہتا ہے اور یہ اتصال دنیاوی زندگی کئے مشابہ نہیں ہوتا بلکہ  اس کے قریب تر حالت سوئے ہوئے انسان کی ہے۔بظاہر اس کی روح اتصالی شکل میں کوئی جگہ گھومتی پھرتی ہے۔ اور بعض علماء نے اس کو سورج کی شعاعوں سے بھی تشبیہ دی ہے۔جو دور دور تک پھیلتی جاتی ہیں۔

چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  اپنے مطبوعہ فتاویٰ میں فرماتے ہیں:

''  ان ارواح المومنين في عليين وارواح الكفار في سجين ولكل روح اتصال وهو اتصال معنوي لايشبه الاتصال في الحياة الدنيا بل اشبه شئي به حال النائم انفعالا وشبهة بعضهم بالشمس اي بشعاع الشمس وهذا مجمع ما افترق من الاخيار ان  محل الارواح في عليين وسجين ومن كون افنية الارواح عند  افنية قبورهم كما نقله ابن عبد البر عن الجمهور ’’

'' اور شيخ ابن باز  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

''ابن عبد البر  رحمۃ اللہ علیہ  کا قول یعن  روحوں کا عالم قبور میں ہونا اور مالک  رحمۃ اللہ علیہ  کا قول یعنی روحیں جہاں چاہتی ہیں کھاتی  پیتی ہیں۔ یہ اقوال ضعیف ہیں۔ کیونکہ قرآن کے ظاہر کے مخالف ہیں۔قرآن کا ظاہر دلالت کرتا ہے کہ ارواح اللہ کے ہان ممسک (نہیں) ہیں۔انہیں نعمتیں اور عذاب اللہ کی مشیت کے تحت پہنچتا رہتا ہے۔اس میں کوئی مانع (رکاوٹ) نہیں کہ ان پر عذاب اور نعمتیں پیش ہوں۔  پھر سب بدن یا ا س کے بعض اجزاء کو اس کا احساس بھی ہو اور مشار ا لیہ دلیل اللہ کا ارشاد ہے:

اللَّـهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا

(حاشیہ فتح الباری :3/223)

نیز ایک صحیح حدیث میں ہے:

ان امسكت نفسي فارحمها وان ارسلتها فاحفظها »صحیح البخاری کتاب الدعوات رقم الباب (13) ح(6320)

مذید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہوLشرح العقیدۃ الطحاویۃ ص 389 اور 391۔392) فتح الباری  4/243) بمعہ حاشیہ شیخ ابن بازرحمۃ اللہ تعالیٰ)

نمبر4۔ اس دوران میں بھی من وجہ روح کا تعلق بلا اعادہ بدن سے قائم رہتا ہے۔ جس کا احساس اسے مختلف امور میں کرادیا جاتا ہے۔ مثلا صالح انسان شدت سے ثواب موعود کا منتظر رہتا ہے جبکہ نافرمان پریشانی کا اظہار کرتا ہے۔ اس پر امام بخاری   رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی صحیح میں بایں الفاظ  تبویب قائم کی ہے:

 باب قول الميت وهو علي الجنازة قدموني »صحیح البخاری کتاب الجنائز رقم الباب

 '' باب اس بات كا  کہ میت اس وقت جب کہ ا س کی لاش چار پائی پر ہوتی ہے یہ کہتی ہے مجھے جلدی لے چلو۔''

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص242

محدث فتویٰ

تبصرے