السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآنی آیات کے جمع متکلم کے صیغوں کو واحد متکلم کے صیغوں میں تبدیل کرلینا کیا حکم رکھتا ہے؟ مذکورہ کتاب کے صفحہ نمبر 511 حدیث نمبر 65 میں قرآنی آیت:﴿ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا﴾ الخ صیغہ واحد متکلم میں موجود ہے۔حدیث کی سند پر غور فرمائیں۔اور مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔کیا دوسری آیات میں بھی ایسے صیغہ واحد متکلم بنایا جاسکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال میں مشار الیہ روایت جو قرآنی آیات میں صیغوں کی تبدیلی کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔وہ ضعیف اور ناقابل حجت ہے کیوں کہ اس میں عبدا للہ بن الولید بن قیس التجیبی المصری ضعیف راوی ہے۔
٭ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
''لين الحديث وله عند ابي دائود حديث واحد في الدعاء اذا استيقظ وضعفه الدارقطني ’’ (تقریب 1/459 (تھذیب 6/69)
٭ اور علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں:
''واسناده ضعيف فيه عبد الله بن الوليد وهو المصري وهو لين الحديث كما في التقريب ’’
(مشکواۃ 1/382) رقم الحدیث 1214 عمل الیوم والیلۃ لابن المسنی 276 حدیث رقم 761 سنن ابی دائود باب ما یقول الرجل ازا تعارمن اللیل ۔مع عون المعبود 4/474)
٭ نیز صاحب المرعاۃ فرماتے ہیں:
'' واخرجہ ایضا النسائی وابن حبان والحاکم وصححہ وابن مردویہ وابن السنی فی عمل الیوم والليلةّ’’ (2/167)
''یاد رہے تمام ائمہ کے ہاں اس حدیث کا مدار عبدا للہ بن الولید پر ہے۔ اور وہ ضعیف ہے۔لہذا حدیث ضعیف ٹھری۔مسئلہ ہذا میں کوئی صحیح واضح نص ایسی نگاہ سے نہیں گزری جو قرآنی آیات میں صیغوں کی تبدیلی کے جواز پر دال ہو۔لہذا بلا دلیل ایسے اقدام سے احتیاط میں ہی راہ سلامتی ہے اور اسی کو اختیار کرنا چاہیے۔(حتي ياتي الله بامره)
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب