سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(28) تدبر قرآن

  • 12747
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1988

سوال

(28) تدبر قرآن

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن مجید میں ہے:

1۔﴿ لَهُم قُلوبٌ لا يَفقَهونَ بِها...١٧٩﴾... سورة الاعراف

2۔﴿أَفَلا يَتَدَبَّر‌ونَ القُر‌ءانَ أَم عَلىٰ قُلوبٍ أَقفالُها ﴿٢٤﴾... سورة محمد

مندرجہ بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ غور وتدبر اور فہم کا تعلق دل سے ہے۔لیکن ہم سمجھتے ہیں۔ کہ یہ کام دل کا نہیں ہے بلکہ دماغ کا ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عقل وشعور اور تدبر وفہم کا اصل محل اور مقام بنی آدم کا دل ہے جس طرح کہ متعدد قرآنی آیات اور بے شمار احادیث نبویہ  صلی اللہ علیہ وسلم  میں تصریح موجود ہے۔بطور مثال سورۃ الحج کی آیت نمبر 48 ملاحظہ فرمائیں۔فرمان باری تعالیٰ ہے:

﴿أَفَلَم يَسير‌وا فِى الأَر‌ضِ فَتَكونَ لَهُم قُلوبٌ يَعقِلونَ بِها أَو ءاذانٌ يَسمَعونَ بِها ۖ فَإِنَّها لا تَعمَى الأَبصـٰرُ‌ وَلـٰكِن تَعمَى القُلوبُ الَّتى فِى الصُّدورِ‌ ﴿٤٦﴾... سورة الحج

یعنی'' کیا ا  ن لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی تاکہ ان کے دل (ایسے) ہوتے کہ ان سے سمجھ سکتے اور کان (ایسے) ہوتے کہ ان سے سن سکتے بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں۔(وہ ) اندھے ہوتے ہیں:

'' زیر آیت ہذا امام شوکانی  رحمۃ اللہ علیہ  رقم طراز ہیں:

واسند التعقل الي قلوب لانها محل العقل كما ان الاذان محل السمع وقيل : العقل محله الدماغ ولا مانع من ذلك قالقب هو الذي يبعث علي ادراك العقل وان كان محله خارجا عنه’’(فتح القدیر :3/459)

یعنی'' ادراک وشعور کی نسبت قلوب کی  طرف اس لیے ہے کہ وہ عقل کا محل ہیں۔ جس طرح کے کان سماع کا محل ہیں۔ اور ایک غیر معروف قول یہ بھی ہے کہ عقل کا محل دماغ ہے۔ یہ بات اول الزکر قول کے منافی نہیں کیوں کہ دل منشائے ادراک وفہم ہے اگرچہ عقل کا جائے استقرار قلب سے خارج دماغ ہے۔''

اس  توضیح وتشریح سے معلوم ہو اکہ اصل دل ہی چشمہء ظہور عقل وفہم ہے۔اور  من وجہ اس کا تعلق دماغ سے بھی ہوسکتا ہے۔لہذا قرآن نے اصل کے اعتبار سے فہم وتدبر کی نسبت   دل کی طرف کی ہے۔ارشا د باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّ فى ذٰلِكَ لَذِكر‌ىٰ لِمَن كانَ لَهُ قَلبٌ أَو أَلقَى السَّمعَ وَهُوَ شَهيدٌ ﴿٣٧﴾... سورة ق

اور علامہ  فخر الدین  رازی کے سوال نمبر 4 عنوان قائم کرکے  فرماتے ہیں:

’’ هل تدل الاية علي ان العقل هو العلم وعلي ان محل العلم هو القلب؟’’

'' کیا آیت اس بات پر دال ہے کہ عقل سے مراد یہاں علم ہے اور اس بات پر بھی کہ علم کا محل دل ہے؟''

جواباً فرماتےہیں۔ہاں اس لئے کہ اللہ کے قول﴿قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا﴾  سے مقصود علم ہے۔اور اللہ کا  قول:﴿ يَعْقِلُونَ بِهَا﴾ مثل دلیل کے ہے کہ   قلب له فهم وادراك  ہے۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ دل محل عقل وفہم ہے(تفسیر کبیر جز 23 ص 45)

نیز مفسر قرآن مولانا امیر علی فرماتے ہیں۔بعض نے لکھا ہے آیت میں قلوب کی طرف سمجھنے کی نسبت فرمائی۔بقولہ﴿يَعْقِلُونَ بِهَا﴾یعنی'ان قلوب سے سمجھتے '' تو یہ نسبت اس وجہ سے کہ عقل کا محل قلب ہے جیسے سننے کا محؒ کان۔(تفسیر مواھب الرحمٰن جز:17 ص 343)

اور جن متجد دین اور فلاسفہ نے عقل کاابتدائی اور استقراری تعلق صرف دماغ سے تسلیم کیا ہے وہ سعی موہومہ اور تحصیل لاحاصل کا شکار ہیں۔خواہ مخواہ اپنی کمزور عقل کے سہارے تاویلات باطلہ پر اعتماد کرکے منصب نبوت کو بھلا بیٹھنا اچھی بات نہیں۔دراں حالیکہ صحیح عقل ہر لمحہ نبوت کی روشنی کی محتاج ہے۔والتوفیق بید اللہ ۔کتاب وسنت سے قطعاً اس نظریہ کی تائید نہیں ہوتی بلکہ یہ واضح نصوص کے برعکس ہے ایک حدیث میں وارد ہے:

«ان الله جعل الحق علي لسان عمر وقلبه» (١)(جامع ترمذی :10/169 مع تحفۃ الاحوذی)

یعنی''اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور دل پر حق کو جاری کردیا ہے۔''حدیث ہذا سے بھی معلوم ہو اکہ اصل منبع تعقل دل ہے۔

یاد رہے اس مسئلہ میں مولانا مودودی مرحوم سے لغزش ہوئی ہے انہوں نے اس قسم کے کلام کو محض ادبی اسلوب اور تخیل قرار دے کر ٹال دیا ہے اور کہا ہے کہ قرآن سائنس کی زبان میں نہیں بلکہ ادب کی زبان میں کلام کرتا ہے۔گویا  اس میں مسلمہ امر کا فکر ہے۔جس کی مذید تشریح وتفسیر محتاج بیان نہیں۔ملاحظہ ہو؛(تفھیم القرآن :2/236)


1۔(٣١) صححه الترمذي واحمد شاكر والباني والحاكم والذهبي صحيح الترمذي  المنا قب (٣٩٤٧)احمد  (٢/٩٥...٣٥)(٥٦٩٧’٥١٤٥) ابن ماجه (108) فضائل الصحابة ( ٣١٥) لاحمد عن ابي هريرة (٣٩٥) عن ابن عمر الحاكم في المستدرك (٣/٨٧) (٤٥.١)عن ابي ذر

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص207

محدث فتویٰ

تبصرے