السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے۔یا اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت عطا فرماتا ہے۔ایسا قرآن میں بہت سی جگہ ہے اس سے کیا مراد ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآنی آیات میں سے مقصود یہ ہے کہ لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ایک وہ جن میں ضبط کا مادہ ہوتا ہے۔ اور نفس پر کنٹرول کرسکتے ہیں۔ دوسرے وہ جو اپنے آپ کو آذاد سمجھتے ہیں اور کسی کا حکم اپنے اوپر لینے کے لئے تیار نہیں ایسے لوگوں کو ہدایت نہیں ہوتی۔بلکہ وہ انکار کرکے یا خواہش نفسانی کے تابع ہوکر حق سے دور ہوجاتے ہیں۔اور اللہ کی طرف سے ایسے لوگوں کو توفیق نہیں ملتی۔بلکہ اللہ تعالیٰ ناراض ہوکر ان کی باگ ڈور ڈھیلی چھوڑ دیتا ہے سے گمراہی کے گڑھے میں جا گرتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَأَمَّا الَّذينَ فى قُلوبِهِم مَرَضٌ فَزادَتهُم رِجسًا إِلىٰ رِجسِهِم وَماتوا وَهُم كـٰفِرونَ ﴿١٢٥﴾... سورة التوبة
''سو جو ایمان لائے ہیں۔ان کا ایمان تو زیادہ کیا اور وہ خوش ہوتے ہیں۔ اور جن کے دلوں میں مرض ہے ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا اور وہ مرے بھی تو کافر کے کافر۔''
نیز علامہ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ''تيسرا الكريم الرحمٰن في تفسير كلام المنان'' میں فرماتے ہیں:
''فاقتضت حكمته تعاليٰ اضلالهم لعدم صلا حيتهم للهدي كما اقتضي فضله وحكمته هداية من التصف بالايمان وتحلي بالاعمال الصالحه ’’(1/6)
یعنی'' اللہ کی حکمت کا تقاضا ہے۔کہ کفار میں ہدایت کی صلاحیت نہ ہونے کی بناء پر ان کو گمراہ کردیا گیا۔جس طرح کہ ا س کے فضل وحکمت کا اقتضاء ہوا کہ ایمان سے متصف اور اعمال صالحہ کو اپنانے والے کوہدایت دے۔''
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب