السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسجد کے قریب قبر بنانا کیسا ہے؟ یا قبر کے نزدیک مسجد بنانا جائز کہ نہیں؟ایسی مساجد میں نماز ہو جاتی ہے؟جب کہ قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم آج کل مسجد کے اندر ہی موجود ہے ارد گرد مسجد ہے۔لوگ نمازپڑھ رہے ہوتے ہیں اگر یہ استثنائ ہے تو کس دلیل سے؟(یہاں پر تین قبریں ہیں)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسجد کے نزدیک قبر بنانا یا قبر کے نزدیک مسجد تعمیرکرنا دونوں طرح ناجائز ہے۔کیونکہ اسلام میں مسجد اور قبر کا اجتماع ممنوع ہے حدیث میں ہے:
« اجعلوا في بيوتكم صلاتكم ولا تتخذوها قبورا»(بخاری و مسلم)
یعنی'' گھروں میں بھی نماز پڑھا کرو انہیں قبریں مت بناؤ!''(صحيح البخاري باب كراهية الصلاة في المقابر (٤٣٢) صحيح مسلم كتاب الصلاة المسافرين باب استحباب صلاة النافلة في بينه ...(١٨٢٤)
اور دوسری روایت میں ہے:
« الارض كلها مسجد الا المقبرة والحمام » (رواه البزار وغيره)
''یعنی ''قبرستان اور حمام کے علاوہ تمام زمین مسجد ہے۔''(صححه الحاكم والذهبي وابن حبان وابن خذيمه والالباني وارشاد الحق الاثري صحيح ابي دائود كتاب الصلاة باب في المواضع التي لا تجوز فيها الصلاة (٤٩٢٩ احمد (٣/٨٣.٩٣) الترمذي (٣١٧) مسند السراج بتحقيق الاثري (501.502) الحاكم (١/٢٥١) الارواء (٢٨٧)(١/320)
اول ازکر روایت سے اکثر اہل علم نے استدلال کیا ہے کہ قبرستان محل نماز نہیں ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث ہذا پر ((كراهية الصلاة في المقابر)) کا ترجمہ کیا ہے۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ جس نے قبرستان میں یا کسی قبر کی جانب رخ کرکے نماز پڑھی وہ اس کا اعادہ کرے اور جہاں تک مسجد نبوی کا تعلق ہے سو وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہے کیونکہ اس کی فضیلت خصوصی حیثیت سے ہے ۔چنانچہ ایک روایت میں ہے میری اس مسجد میں نماز کا ثواب دوسری مساجد کے مقابلہ میں ہزار نماز سے زیادہ ہے ماسوائے مسجد الحرام کے کہ وہ اس سے افضل ہے۔(صحيح البخاري كتاب وباب فضل الصلاة في مسجد مكة وللمدينه (١١٩-) صحيح مسلم كتاب الحج باب فضل الصلاة لمسجد مكة والمدينه (٣٣٧٤)
اور دوسری روایت میں ہے کہ میرے بیت یعنی حجرہ اور منبر کے درمیان کا قطعہ جنت کے باٖغات سے ہے ۔(صحيح البخاري كتاب فضل الصلاة في مسجد مكة والمدينه باب فضل ما بين القبر والمنبر (١١٩٥.١١٩٦) صحيح مسلم كتاب الحج باب فضل مابين قبره صلي الله عليه وسلم ومنبره (٣٣٦٨) لہذا اگر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز کی کراہت کا فتویٰ دیا جائے۔تو اس کی حیثیت دوسری مساجد کے برابر ہوجائے گی۔اور ان فضائل کی نفی لازم آئے گی۔تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی معروف کتاب :'' الجواب الباھر''
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب