السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید نے اپنی گرہ سےمسجد کے لئے ایک پلاٹ گورنمنٹ سے خریدا۔اپنی گرہ سے مسجد تعمیر کی۔کسی سے ایک پیسہ تک نہ لیا۔خود اس کی دیکھ بھال کرتا رہا او ر اس مسجد کا متولی بنارہا مسجد کے اخراجات اپنی گرہ سے ادا کرتا رہا۔زید کی وفات کے بعد ا س کی اولاد دیکھ بھال کرتی رہی۔اولاد نے بھی اس مسجد کے لئے کسی سے چندہ نہ لیا۔بعض افراد نے اس مسجد کی ایک انجمن رجسٹرڈ کرالی۔جس نے متولیان کی بے خبری میں مسجد پر قبضہ کرلیا۔شریعت اس بارے میں کیا فیصلہ صادر فرماتی ہے انجمن کا یہ فعل درست ہے یا غلط ہے؟نیز پلاٹ مسجد کے لئے خریدا گیا تھا وہ وقف نہیں ہے اور نہ ہی مسجد کو وقف کیا گیا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زید نے اپنی گرہ سےمسجد کے لئے ایک پلاٹ گورنمنٹ سے خریدا۔اپنی گرہ سے مسجد تعمیر کی۔کسی سے ایک پیسہ تک نہ لیا۔خود اس کی دیکھ بھال کرتا رہا او ر اس مسجد کا متولی بنارہا مسجد کے اخراجات اپنی گرہ سے ادا کرتا رہا۔زید کی وفات کے بعد ا س کی اولاد دیکھ بھال کرتی رہی۔اولاد نے بھی اس مسجد کے لئے کسی سے چندہ نہ لیا۔بعض افراد نے اس مسجد کی ایک انجمن رجسٹرڈ کرالی۔جس نے متولیان کی بے خبری میں مسجد پر قبضہ کرلیا۔شریعت اس بارے میں کیا فیصلہ صادر فرماتی ہے انجمن کا یہ فعل درست ہے یا غلط ہے؟نیز پلاٹ مسجد کے لئے خریدا گیا تھا وہ وقف نہیں ہے اور نہ ہی مسجد کو وقف کیا گیا ہے۔
جواب۔بہ نیت مسجد جو زمین خریدی گئی ہو اور بالفعل وہاں مسجد بھی تعمیر کردی گئی ہو۔نیز مدت مدید سے وہاں نمازیں بھی پڑھی جارہی ہوں یہ سب احوال اور قرائن وشواہد اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ قطعہ اراضی وقف ہے بالقول وقف کی صراحت نہ بھی ہو تو کوئی حرج نہیں اسے وقف ہی سمجھا جائے گا۔ بعض صحیح روایات میں وارد ہے۔ہجرت کے بعد جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں نزول فرمایا تو آپ نے یہاں مسجد کی بنیاد کے عزم کا اظہار کیا۔اس سلسلہ میں بنی النجار کو بلا بھیجا تاکہ مخصوص ٹکڑا مسجد تعمیر کرنے کی خاطر خریدا جاسکے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودا کرنا چاہا تو انہوں نے کہا: ''لانطلب ثمنه الا الي الله '' یعنی ہم تو اس کی قیمت کے صرف اللہ عزوجل سے متمنی ہیں۔اسی بات کو وقف کے حکم میں سمجھ کر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے۔''باب وقف الارض للمسجد '' یعنی زمین کا مسجد کےلئے وقف کرنا۔(1)(بخاری:1/389) حتی کہ جو لوگ وقف العقاد کے قائل نہیں وہ بھی اس مسئلے میں متفق ہیں۔
اور جہاں تک تولیت کا تعلق ہے شریعت نے اس کو بھی قابل اعتبار سمجھا ہے۔(ملاحظہ ہو:بلوغ المرام باب الوقف)
لہذا متولی وقف شدہ شی کی اصلاح اور نگہبانی کازمہ دار ہے چاہے وہ مسجد ہو یا کوئی اور چیز بلا وجہ اس کے اختیارات کو سلب یا معطل کردینا درست بات نہیں ہاں اگر وہ فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کا مرتکب ہے تو بطریق احسن اس کا محاسبہ ضروری ہے۔متولی سے صرف نظر کرکے علیحدہ انجمن قائم کرلینا پھر مسجد پر قبضہ مستحسن فعل قرار نہیں دیا جاسکتا ۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے۔''الخلاف شر'' یعنی اختلاف بری شے ہے۔(2) بلکہ جذبہ ء اخوت ومودت کے تحت مسجد کے معاملات کو چلانے کے لئے باہمی مل کر متفقہ انجمن (3) تشکیل دینی چاہیے۔
﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقوىٰ...٢﴾... سورة المائدة
1۔ صحيح البخاري كتاب الوصايا باب وقف الارض للمسجد (٢٧٧٤)
2۔ صححه اللباني صحيح ابي دائود كتاب المناسك باب الصلاة بمعني (1960)
3۔تنظیم سازی کی یہ '' مغربی بدعت'' جب سے ہمارے اسلامی ملکوں میں آئی ہے اس نے ہر چیز کا ستیا ناس کردیا ہے ۔سیاسی پارٹیاں بھی اس بدعت کا نتیجہ ہیں جنھوں نے ملک کا بیڑا غرق کیا۔مذہبی جماعتوں کے اندر بھی اسی نے دھڑے بندیوں کو فروغ کردیا۔اور مسجدوں مدرسوں اور دینی اداروں کے اندر بھی باہمی محاذ آرائی کا باعث بالعموم یہی تنظیم سازی کا رجحان ہے اس لئے اس ''بدعت'' سے جتنا بچا جاسکے بچنے کا اہتمام اور شخص واحد کے زریعے سے جب تک صحیح طریقے سے کام چل رہا ہو اس کوتبدیل کرنے سے گریز ہی کرنا چاہیے جیسا کہ حضرت مفتی صاحب دام ظلہ نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔صلاح الدین یوسف)
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب