السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک دیوبندی عالم کی کتاب میں لکھاہوا ہے۔ کہ حدیث شد رحال میں جو تین مساجد کے علاوہ سفر کرنا منع ہے تو اس سے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قصد کرکے سفر کرنا منع نہیں ہوتا۔کیونکہ حدیث میں مساجد کا زکر ہے اور جہاں سفر کرنے کی ممانعت ہے۔ وہ جگہیں مخذوف ہیں۔ لہذا نحوی ا عتبار سے وہ ان تین مساجد کے علاوہ باقی مسجدیں ہیں۔ در اصل مصنف یہ ثابت کرنا چاہتا ہے۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر ا طہر کی زیارت کی نیت سے سفر جائز ہے۔کیا مصنف کا استدلال درست ہے۔ مصنف نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ کا بھی دلیل کے طور پر نقل کیا ہے۔ کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دمشق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی۔ اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تم ہماری زیارت کو کیوں نہیں آتے تو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ فورا اونٹ پر سوار ہوکر مدینہ پہنچے اور قبراطہر پر حاضری دی۔سندا ً یہ و اقعہ کیسا ہے؟نیز اگر روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے قصداً سفر کیا جائے تو کیا یہ صحیح ہے یا اگر ممانعت کی حدیث ہے مع صحت تحریر کیجئے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دیوبندی کا استدلال محل نظر ہے نسائی میں حضر ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے میں بصرہ بن ابی بصرہ کو ملا انہوں نے کہا آ پ کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے کہا پہاڑ طور سے کہااگر میری ملاقات آپ سے پہلے ہوتی تو آپ پیاڑ طور پر نہ آتے۔ میں نے کہا کیوں؟ کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ کہ سفر نہ کیا جائے مگر تین مسجدوں کی طرف۔مسجد حرام میری مسجد اور مسجد بیت المقدس ۔1۔علامہ سندھی حنفی اس حدیث پرلکھتے ہیں:
''استدلال بصره به وهو راوي الحديث يدل علي ان المستثني منه عام اي مكان من الامكنة ’’
1۔النسائی کتاب المساجد باب ماتشد الرحال الیہ (1۔7) صحیح البخاری فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ (1189) واصل القصة في الموطا كتاب الجمعة باب ماجاء في الساعة التي في يوم الجمعة
یعنی''بصرہ راوی حدیث کا استدلال اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مستثنیٰ منہ عام ہے یعنی کسی جگہ کی طرف (تقرب کے لئے) سفرکرنا جائز نہیں ۔مگر تین مسجدیں۔۔۔الخ۔''
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ''قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة’’میں لکھتے ہیں:
''امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ایک شخص کی بابت جن نے نذر مانی کہ قبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آئےگا۔سوال ہواتو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر قبر کا ارادہ کیا ہے تو نہ آئے کیوں کہ حدیث میں ہے کہ تین مسجدوں کے سوا کسی جگہ کی طرف (بہ نیت تقرب) سفر جائز نہیں۔''1
شیخنا محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ اس پر مذید رقم طراز ہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ طلب علم اوردیگر ضروریات کے لئے سفر کا کوئی حرج نہیں۔صرف کسی جگہ کی طرف جس میں قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی داخل ہے ثواب کی نیت سے سفر کرناجائزنہیں۔ہاں اگر یہاں سے مسجد نبوی کی نیت سے سفرکرے۔اوروہاں پہنچ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی بھی زیارت کرے تواس میں کوئی حرج نہیں بلکہ ایسا ہی کرنا چاہیے تاکہ انسان شبہ سے بھی نکل جائے اور کام بھی دونوں ہوجائیں۔''(مسئلہ زیارت قبر نبوی :31)
نیز حضرت قزعہ سے روایت ہے کہ میں نے کوہ طور کی زیارت کا قصد کیا تو اس بارے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا تو انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حدیث سنائی۔یعنی حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی ۔اور پھر کہا لہذا طور جانے کا خیال چھوڑ دیجئے وہاں مت جائیے۔2(بحوالہ اخبار مکہ للازر فی باسناد صحیح)
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ سند کےاعتبار سے غیر درست ہے۔3دوسری بات یہ ہے کہ شریعت کی بنیاد خوابوں پر نہیں ہے۔
1۔(٦) مجموع الفتاويٰ لابن تيميه (٢٧/٣٣٥)
٢...(٧) ابن ابي شيبة كتاب الصلاة التطوع والامامة في الصلاة في بيت المقدس رقم الباب (210)(٢/٢٦٨) ح(٧٥٣٨)فيه عن قزعة :سالت عمر ...الخ ارواء الغليل (٤/١٤١...١٤٢) وصححه
٣...السد الغابة(١/٢٤٤...٢٤٥) لابن الاثير بغير سند وسير اعلام النبلاء للذهبي (١/٣٥٨) وقال: اسناده لين وهو منكر.
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب