السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کافی عرصہ ہوا 'الدعوۃ'' میں یہ مسئلہ نظروں سے گزرا کہ ﴿ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَرشِ...٣﴾... سورة يونس" اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے۔چنانچہ یہ عقیدہ نہیں رکھنا چاہیے۔ کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے۔ بلکہ ا س کی قدرت ہر جگہ موجود ہے۔ اس سلسلے میں صحیح عقیدے کی وضاحت مطلوب ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلاریب اللہ عزوجل کاعرش پر مستوی ہونا متعدد قرآنی نصوص سے ثابت ہے۔اور بہت ساری احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی مفہوم کی موکد وموید ذخیرہ کتب محدثین میں موجود ہیں جن کو تواتر معنوی کادرجہ حاصل ہے اور ائمہ سلف کے بے شمار اقوال وآثار اس بات پر مصرح ہیں جو تاویلات باطلہ کے قطعا متحمل نہیں ہیں۔لفظ''عرش'' کے معنی''تخت'' اور ''بلند مقام'' کے ہیں۔
الازہری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: العرش في كلام العرب سير الملك’’یعنی بادشاہ کا تخت
اور جوہری رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے:
'' العرش سرير الملك وعرش البيت سقفه والعرش والعريش ما يستظل به و عرش القدم مانتافي ظهرها وفيه الاصابع وعرش البئر طيها بالخشب بعد ان يطوي اسفلها بالحجارة قدر قامة لذلك الخشب هو العرش والجمع عروش وعرش يعرش ويعرش عرشا اي بني بناء من خشب ’’(الصحاح :1/349۔350)
ڈاکٹر ٖغنیمان فرماتے ہیں۔جو کچھ اہل لغت نے زکر کیا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرش بلند وبالاتخت کا نام ہے جس کے اوپر بادشاہ براجمان ہوتا ہے ار اس کا اطلاق چھت پر بھی ہوتا ہے۔اور رب جل وعلا کے عرش پر دونوں معنی مطبق ہیں۔وہ اس کے مستوی ہونے کا محل ہے اور کائنات کے لئے چھت بھی ہے۔(شرح کتاب التوحید من صحیح البخاری :1/350)
اور لفظ ''استواء'' کی تعبیر میں سلف سے مختلف الفاظ منقو ل ہیں
٭ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
''قال ابو العالية : استوٰي الي السماء ’’ اي ارتفع فسواهن’’ خلقهن...وقال مجاهد :’’ استوٰي علا في العرش’’
٭ یعنی ابو العالیہ نے کہا استوٰي الي السماء کامعنی ہے آسمان کی طرف چڑھا '' فسواهن'' ان کو پیدا کیا۔
٭اور مجاہد نے کہا: استوٰي کا معنی ہے عرش پر بلند ہوا۔(ترجمۃ الباب صحیح بخاری 1۔
٭ ربیع بن انس نے کہا:
'' ثم استوٰي الي السماء: ارتفع الي السماء
(تفسیر طبری:1/429تحقیق محمود شاکر)
٭ اور لالکائی نے بسند بشر بن عمر سے بیان کیا ہے میں نے کئی ایک مفسرین
سے سناہے وہ کہتے تھے(الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ) ارتفع
1۔صحیح بخاری کتاب التوحید باب (وكان عرشه علي الماء) |
(شرح اصول اعتقاد اھل السنۃ)
٭ اور حافظ ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
'' الاستواء: الاستقرار في العلو وبهذا خاطبنا الله عزو جل فقال :لتستووا علي ظهوره ثم تزكروا نعمة ربكم اذا ااستويتم عليه’’
٭ كلبی اور مقاتل رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:'' استقر'' قرار پکڑا اور ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا صعد چڑھا۔
٭ امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ ائمہ سے یہ معانی نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: معتزلہ نے استواء کی تاویل ''استیلاء'' یعنی غلبہ سے کی ہے۔
٭ او اہل سنت کہتے ہیں:
الاستواء علي العرش صفة الله تعاليٰ بلا كيف يجب علي العبد الايمان به وبكل العلم فيه الي الله عزوجل(تفسیر البغوی :2/237)
یعنی عرش پر مستوی ہونا کیفیت بیان کرنے کے بغیر اللہ کی صفت ہے بندے پر واجب ہے کہ اللہ پر ایمان لائے اور اس میں کہنہ کا علم اللہ کے سپرد کردے۔
٭ اور صاحب '' التحفة المهدية شرح الرسالة التدميريه ’’مذکورہ الفاظ کے بارے میں اپنی رائے کااظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔:
وهذه العبارات وان اختلفت فمقصود هم واحد وهو اثبات علوا الله علي العرش ’’(١/١٤٧)
تاہم جن لوگوں نے ''استوٰی'' کی تاویل ''استولیٰ '' (غالب ہوا) سے کی ہے ان کا استدلال ایک شعر سے ہے:
ثم استوٰي بشر علي العراق من غير سيف او دم مهراق
یعنی بشر عراق پر بلا قتل وغارت کے غالب آگیا۔لیکن اس کے بارے میں صاحب التحفۃ المھدیۃ فرماتے ہیں:
’’ ولم يثبت بنقل صحيح انه شعر عربي وكان غير واحد من ائمة اللغة قد انكروه وقالوا: انه بيت مصنوع لا يعرف في اللغة’’
'' یعنی یہ بات پایہ ثبوت کو نہیں پہنچ سکی کہ یہ عربی شعر ہو بہت سارے ائمہ لغت نے اس کا انکار کیا ہے انہوں نے کہا کہ یہ لغت میں غیر معروف اور من گھڑت شعر ہے۔''
چنانچہ ابو لمظفر اپنی کتاب''الافصاح'' میں فرماتے ہیں:
’’سئل الخليل هل وجدت في اللغه استوٰي بمعني استوليٰ؟ فقال: هذا مالا تعرفه العرب ولا هو جائز في لغتها ’’
''یعنی خلیل سے دریافت ہوا کہ تو نے لغت میں ''استوٰی'' بمعنی ''استولیٰ'' (غالب ہوا) پایا ہے۔کہا یہ وہ شے ہے جس سے عرب ناواقف ہیں۔اور نہ ان کی زبان میں یہ جائز ہی ہے۔''
ابو نصر سجزی نے ''الابانۃ'' میں کہا ہے:
’’ وائمتنا كسفيان ومالك والحمادين وابن عيينة والفضيل وابن المبارك واحمد ابن حنبل واسحاق متفقون علي ان الله سبحانه فوق العرش وعلمه بكل مكان وانه ينزل اليٰ سماء الدنيا وانه يغضب وبرضي ويتكلم بما شاء’’ (سیر اعلام النبلاء :17/650)
'' یعنی ہمارے ائمہ جیسے سفیان مالک دونوں حماد ابن عینیہ الفضیل ابن المبارک احمد بن حنبل اور اسحاق سب اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ عرش کے اوپر ہے اور اس کا علم ہر جگہ ہے۔ اور وہ آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے۔وہ راضی ناراضی ہوتا ہے جس شے کے ساتھ چاہتا ہے کلام کرتا ہے۔''
ان نصوص سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے عرش پر مستوی ہے: کما یلیق بجلالہ ''
البتہ اس کا علم ہر شے کو محیط ہے۔﴿وَأَنَّ اللَّـهَ قَد أَحاطَ بِكُلِّ شَىءٍ عِلمًا ﴿١٢﴾... سورة الطلاق" جملہ اہلسنت کا یہی عقیدہ ہے ۔اس کا خلاف الحاد اور گمراہی ہے۔
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب