سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(04) لفظ ’ خدا‘ کا استعمال

  • 12721
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 4603

سوال

(04) لفظ ’ خدا‘ کا استعمال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگ لفظ اللہ کی بجائے لفظ خدا بکثرت استعمال کرتے ہیں شریعت میں اس کا کیا حکم ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لفظ خدا اور لفظ اللہ کی کنہہ اور حقیقت کے ادراک کے لئے ضروری ہے کہ اہل لسان کی طرف مراجعت کریں تاکہ ما بہ الامتیاز کا انکشاف ہو اورزیر بحث مسئلہ خود بخود نکھر کر اصلی شکل وصورت میں سامنے آئے۔

پہلے لفظی ترجمہ کی  تعریف ذہن نشین کرلیں تاکہ آئندہ بحث کو سمجھنے میں آسانی رہے۔کلام  کو ایک زبان سے  بمطابقت  رعایت نظم وترتیب اور مترجم شیء کے تمام اصل معانی کو محفوظ رکھنے دوسری زبان میں منتقل کردینے کانام لفظی ترجمہ ہے۔(التفسیر والمفسرون)

اب دونوں لفظوں میں سے ہر ایک کی بالا ختصار علیحدہ علیحدہ تعریفات اور معانی ملاحظہ فرمائیں۔

٭ خدا خود ہی آنے والا اور موجود ہونے والا اللہ  تعالیٰ۔(فیروز الغات اردوجدید)

٭ خدا یہ لفظ خود اور آیعنی آئندہ سے مرکب ہے اور یہ ترجمہ ہے واجب الوجود کا (فیروز الغات فارسی)

٭ خدا جمع خدایاں ۔(فیروز لغات اردو)

٭  خدا خالق: عبادت کے لائق چیز مذہب کے مطابق اعلیٰ چیز انتہائی عقیدت کی چیز۔ مافوق الانسان چیز۔(چیمبرز سٹوڈنٹس لغت)

اور لفظ ''اللہ'' سےمراد:

’’ الذات الواجب الوجود المستجمع جميع صفات الكمال المنزه عن جميع النقائص ’’

'' یعنی وہ ذات جو خود بخود ہے کسی دوسرے نے اس کو بنایا نہیں۔تمام کمالات کا جامع اور جملہ عیوب سے پاک ہے۔''

اس کے مشتق اور غیر مشتق ہونے میں اختلاف ہے۔ بعض لوگ اسے علم ذاتی غیر مشتق مانتے ہیں۔ان کی دلیل یہ ہے کہ لفظ ''اللہ'' ہمیشہ موصوف واقع ہوتا ہے۔لفظ ''اللہ'' کے سوا کوئی علم ذاتی بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔اور اگر اس کو علم ذاتی نہ مانا جائے تو کلمہ  توحید سے توحید ثابت نہیں ہوتی۔اس وقت ''لا اله الا الرحمٰن ’’  کی مثل ہوگا۔جو شرکت سے مانع نہیں۔ اور جو لوگ اسے علم وصفی مانتے ہیں۔ ان کامبدا اشتقاق میں اختلاف ہے۔

1۔ کہا جاتا ہے کہ یہ :الہ (بفتح الام)ياله الوهة والوهية(مصادر)بمعنی:عبد عبادۃ  سےہے۔

2۔بعض کے نزدیک :الہ (یکسر اللام) بمعنی تحیر ہے۔چونکہ باری تعالیٰ کو پانے سے عقلیں حیران ہیں۔اس لئے ان کے نزدیک اصل سے ہے۔

3۔اور بعض دوسروں کے نزدیک یہ لاہ یلیہ سے ہے۔بیضاوی نے یلیہ اور ابن کثیر نے یلوہ پڑھا ہے۔بمعنی احتجاب ور فعت ہے۔کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر چیز سے بلند اور ادراک سے محجوب ہے۔(لیکن ا س روایت کی نفی لازمی نہیں آتی) اس لئے اللہ کو اللہ کہتے ہیں۔

4۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ اصل میں لاہ تھا جو سریانی زبان کا لفظ ہے۔ اس پر الف لام داخل کرکے معرب بنایا گیا ہے۔جیسا کہ تفسیر کبیر اور ابن کثیر وغیرہ میں ہے۔ علامہ خلیل ہر اس شارح العقیدۃ الواسطیہ کے نزدیک صحیح مسلک یہ ہے کہ لفظ الجلالۃ پہلے باب(عبد ) سے مشتق ہے۔ چنانچہ حضرت عبدا للہ بن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   فرماتے ہیں۔''الله ذوالالهية والعبودية علي خلقه اجمعين’’ لیکن اس پر علمت غالب ہے۔ باقی اسماء کی خبر اور صفت ہیں کہا جاتاہے۔:الله ’رحمٰن’رحيم’سميع’عليم جیسے کہا جاتا ہے۔: الرحمٰن الرحيم

علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔''انه مختص بالمعبود بالحق’’یعنی'' لفظ اللہ معبود برحق کے ساتھ مخصوص ہے۔''(ص16 الجزء الاول)

محقق العصر مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی  رحمۃ اللہ علیہ   رقم طراز ہیں:

''یہ لفظ کیا بلحاظ رسم الخط 1 ۔اور کیا بلحاظ 2۔اشتقاق ومعنی 3۔عجیب عجیب خصوصیتیں رکھتا ہے۔رسم الخط کی رو سے اس طرح کہ ا س کی   تحریر کاطریق  یوں ہے۔(اللہ) اگر ہمزہ کو ابتداء سے گرا دیں تو باقی صورت (اللہ ) رہ جاتی ہے۔اور یہ لام جارہ داخل کرنے سے (للہ) کی صورت ہے۔''

پھر اگر اس کے پہلے لام کو بھی گرادیں تو صورت (لہ) کی رہ جاتی ہے یعنی لام جارہ اور ضمیر غائب سے مرکب اور اگر لام ثانی کو بھی گرادیں تو صرف وہ صورت ضمیر غائب کی رہ جاتی ہے اور یہ سب یعنی (للہ) اور (لہ) اور (ہ) ذات باری حق کے لئے وار دہیں۔چنانچہ یہ تینوں ایک ہی آیت میں موجود ہیں:

﴿الحَمدُ لِلَّـهِ الَّذى لَهُ ما فِى السَّمـٰوٰتِ وَما فِى الأَر‌ضِ وَلَهُ الحَمدُ فِى الـٔاخِرَ‌ةِ ۚ وَهُوَ الحَكيمُ الخَبيرُ‌ ﴿١﴾... سورة سبا

''سب خوبیاں اللہ ہی کے لئے خاص ہیں جس کی ملک میں ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جوکچھ زمین میں ہے اور اس کی تعریف ہے۔ آخرت میں بھی اور وہ بڑا با حکمت (اور ) ہر چیز سے خبردار ہے۔''

لفظ (ھو) جو اس آیت میں اسم ضمیر ہے اصل میں صرف (ہ) ہی تھا۔واو تلفظ میں سہولت پیدا  کرنے کے لئے زیادہ کی گئی ہے۔دلیل اس کی یہ ہے کہ  اس کی جمع وتثنیہ ھما اور ھم ہے اگر واو اصلی ہوتی تو  تثنیہ اور جمع میں قائم رہتی سبحانا للہ! یہ کیسا مبارک لفظ ہے۔ کہ اس کے حروف مجموعی اور انفرادی ہر دو طرح پر اس ذات باری پر دلالت کرسکتے ہیں۔

عباراتنا شتيٰ وحسنك واحد

وكل اليٰ ذاك     الجمال يشير

''ہماری عبارتیں مختلف ہیں اور تیرا حسن  ایک ہی ہے۔ ہر کوئی اسی جمال (بے مثال) کی طرف اشارہ کررہا ہے۔''(واضح البیان فی تفسیر ام القرآن 75'76)

اس مختصر جامع بحث سے معلوم ہوا کہ لفظ ''اللہ'' میں بے انتہاء گہرائی وسعت اور جامعیت ہے جو کسی بدل میں ممکن نہیں جب کہ لفظ خدا وسعت سے قاصر اور محدود معنی پر دال ہے بلکہ ہمہ تین صفات باری تعالیٰ سے عاری ہے اسی طرح  جمیع''اسماء الله الحسنيٰ’’ مخصوص خصوصیات وامتیازات کے حامل ہیں جن کی جملہ  تفاصیل '' كتاب الاسماء والصفات’’ امام بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ میں موجود ہے۔اس بنا پر رب العباد نے مخلوقات کو ان کے ساتھ ورد وظیفہ کا حکم دیا ہے عاجز بندوں کے لئے تقرب الٰہی کا سب سے اعلیٰ اور عمدہ طریقہ یہی ہے کہ ان کے وسیلہ سے اللہ کے ہاں التجا کریں۔چنانچہ ارشاد باری  تعالیٰ ہے:

﴿وَلِلَّـهِ الأَسماءُ الحُسنىٰ فَادعوهُ بِها ۖ وَذَرُ‌وا الَّذينَ يُلحِدونَ فى أَسمـٰئِهِ ۚ سَيُجزَونَ ما كانوا يَعمَلونَ ﴿١٨٠﴾... سورة الاعراف

'' اور اللہ کے نام اچھے ہی اچھے ہیں تو اس کو اس کے ناموں سے پکارو  اور جو لوگ اس کے ناموں میں کجی (اختیار) کرتے ہیں۔ ان کو چھوڑ دو وہ جو کچھ کررہے ہیں عنقریب اس کی سزا پائیں گے۔''

دوسری جگہ ہے:

﴿قُلِ ادعُوا اللَّـهَ أَوِ ادعُوا الرَّ‌حمـٰنَ ۖ أَيًّا ما تَدعوا فَلَهُ الأَسماءُ الحُسنىٰ...﴿١١٠﴾... سورة الإسراء

''کہہ دو! کہ تم اللہ ( کے نام سے  ) پکارو یا رحمٰن (کے نام سے)  جس نام سے پکارو اس کے سب نام اچھے ہیں۔''

بہر صورت ہمارے ہاں بکثرت لفظ''خدا'' کااستعمال سابقہ سرکاری فارسی زبان کے اثرات کا نتیجہ ہے۔جس سے  باسلوب احسن احتراز کی سعی وتدبیر ہونی چاہیے علی الاقل اس کا اطلاق کراہت سے خالی نہیں۔

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص183

محدث فتویٰ

تبصرے