السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص اسلام کے ارکان خمسہ پر تو عمل پیرا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ بعض گناہوں کا بھی ارتکاب کرتا ہے۔ یعنی واجبات کو بھی ادا کرتا ہے اور منہیات کا بھی ارتکاب کرتا ہے، تو اس کے بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
توبہ کا دروازہ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے تک کھلا ہے، لہٰذا ہر کافر اور گناہ گار کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے آگے سچی توبہ کرے یعنی کفر اور گناہوں پر ندامت کا اظہار کرے، اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس کی تعظیم کی وجہ سے انہیں چھوڑ دے اور عزم صمیم کرے کہ آئندہ ان کا ارتکاب نہیں کرے گا۔ اس طرح توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ سابقہ تمام گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَتوبوا إِلَى اللَّـهِ جَميعًا أَيُّهَ المُؤمِنونَ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿٣١﴾... سورة النور
’’اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ ۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَإِنّى لَغَفّارٌ لِمَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ صـٰلِحًا ثُمَّ اهتَدىٰ ﴿٨٢﴾... سورة طه
’’ ہاں بیشک میں انہیں بخش دینے والا ہوں جو توبہ کریں ایمان لائیں نیک عمل کریں اور راه راست پر بھی رہیں۔‘‘
اور نبی ﷺنے فرمایا ہے:
((لْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ التوبة تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَ)(صحيح مسلم الايمان باب كون الاسلام يهدم ماقبله....حديث:121والشطر الثاني لم اجده)
’’اسلام سابقہ گناہوں کو مٹادیا ہے اور توبہ بھی سابقہ گناہوں کو مٹادیتی ہے۔‘‘
توبہ کی تکمیل کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ حقوق العباد کو ادا کیا جائے یا حق داروں سے انہیں معاف کروا لیا جائے، جیسا کہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:
( مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لأَحَدٍ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَىْءٍ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ الْيَوْمَ، قَبْلَ أَنْ لاَ يَكُونَ دِينَارٌ وَلاَ دِرْهَمٌ، إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ )(صحیح البخاری المظالم باب من کانت له مظلمه عند الرجل فحللها له هل بين مظلمه؟حديث:2429)
’’ ، اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی طریقہ ( سے ظلم کیا ہو ) تو آج ہی ، اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرا لے جس دن نہ دینار ہوں گے ، نہ درہم ، بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہو گا تو اس کے ( مظلوم ) ساتھی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔‘‘
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب