سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(457) میت کی طرف سے عمرہ ادا کرنا

  • 1267
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2703

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا میت کی طرف سے عمرہ کرنا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

میت کی طرف سے عمرہ کرنا اسی طرح جائز ہے، جس طرح حج کرنا جائز ہے۔ اسی طرح میت کی طرف سے طواف اور دیگر تمام اعمال صالحہ بھی جائز ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ ہر نیکی جس کا ثواب کسی بھی زندہ یا مردہ مسلمان کو بخش دیا جائے، اسے اس سے فائدہ ہوتا ہے۔(1)

لیکن میت کے لیے ایصال ثواب کی نسبت دعا کرنا افضل ہے اور اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمان ہے:

«إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ ُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍَ،ْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُّنْتَفَعُ بِه أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَه» (صحيح مسلم، الوصية باب ما يلحق الانسان من الثواب بعد وفاته، ح: ۱۶۳۱)

’’جب انسان فوت ہو جائے تو تین صورتوں کے سوا اس کاعمل منقطع ہو جاتا ہے: صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے نفع اٹھایا جائے اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘

اس حدیث سے استدلال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ نہیں فرمایا کہ نیک اعمال بجا لائے حالانکہ حدیث سیاق عمل میں ہے، یعنی وہ اس عمل کو بیان کر رہی ہے جو موت کے ساتھ منقطع ہو جاتا ہے۔ اگر انسان سے یہ مطلوب ہوتا کہ وہ اپنے باپ اور ماں کے لیے عمل کرے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  یہ فرماتے: ’’اور نیک اولاد جو اس کے لیے عمل کرے۔‘‘(2) البتہ اگر انسان نیک عمل کرے اور اس کا ثواب کسی مسلمان کو ہدیہ کر دے، تو یہ جائز ہے۔(3)


(1)فاضل مفتی صاحب رحمہ اللہ  کا یہ جواب نظر ثانی کا متقاضی ہے، کیونکہ میت کے لیے ایصال ثواب کی صرف وہی صورتیں مشروع ہوں گی۔ جن کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے۔ ہر عمل صالح کے ذریعہ سے ایصال ثواب صحیح نہیں ہے۔ عمرہ بھی ایسا عمل ہے جس کا اثبات کسی حدیث سے نہیں ہوتا۔ صرف غلام کا آزاد کرنا، صدقہ کرنا، حج کرنا اور دعا کرنا، ایسے اعمال ہیں جن کا فائدہ، حدیث کی رو سے میت کو ہوتا ہے۔

(2)فاضل مفتی صاحب کا یہ استدلال بالکل صحیح ہے اور اس سے وہی بات ثابت ہوتی ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔

(3) یہ بات صحیح نہیں اور حدیث مذکور سے استدلال کے بھی خلاف ہے جس کی وضاحت خود فاضل مفتی صاحب نے فرمائی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ آخری رائے، اس رائے کے منافی ہے جو اس سے پہلے عبارت میں ظاہر کی گئی ہے، جس کی رو سے ہر عمل صالح کے ذریعے سے ایصال ثواب نہیں کیا جا سکتا اور یہی رائے راجح اور صواب ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ411

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ