سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(203) حدیث نماز تسبیح

  • 12663
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1770

سوال

(203) حدیث نماز تسبیح

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا نماز تسبیح رسول اللہﷺ سے ثابت ہے یا یہ بدعت اور ناجائز ہے؟ کیا اس کے بارے میں احادیث ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز تسبیح کے بارے میں ایک بہت ہی ضعیف حدیث وارد ہے، جسے معتبر علما میں سے کسی ایک نے بھی صحیح قرار نہیں دیا۔ ائمہ ثلاثہ کے ہاں بھی یہ نماز معروف نہیں ہے اور نہ انہوں نے اس کے بارے میں کوئی (صحیح حدیث) سنی ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ اس کے بارے میں یہ حدیث ثابت نہیں ہے لہٰذا اس کے مطابق عمل نہیں ہونا چاہیے۔ (۱)


(۱) شیخ ابن جبرین رحمه اللہ علیہ کا یہ فتویٰ محل نظر ہے۔ کیونکہ نماز تسبیح کی فضیلت حسن درجے کی روایت سے ثابت ہے۔ نبیﷺنے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اس کے پڑھنے کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ نماز تسبیح کی بابت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تین سندوں سے روایت مروی ہے، مگر تینوں سندوں میں سے سب سے اچھی سند عکرمہ والی ہے۔ اس حدیث کو ابوداود نے (حدیث : 1297) میں، ابن ماجہ نے (حدیث:1216) میں، امام بخاری رحمه اللہ علیہ نے جز القراۃ (حدیث:245) میں عکرمہ کی سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔ اس حدیث کے متعدد شواہد بھی ہیں، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمه اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے دس صحابہ سے اس کے موصول طرق اور متعدد تابعین سے مرسل طرق ملے ہیں۔

اس کے بعد ان طرق کی طرف اشارہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ یہ کثرت طرق کی بنا پر حسن درجے کی ہے۔ نیز محقق عصر علامہ ناصر الدین البانی رحمه اللہ علیہ اور محقق عصر الشیخ زبیر علی زئی نے بھی اسے شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: اجوبۃ الحافظ عن احادیث المصابیح فی آخر المشکاۃ بتحقیق الالبانی: 1782,1780/3۔

لہٰذا اس حدیث کو شیخ ابن جبرین رحمه اللہ علیہ کے سہو یا عدم علم کی وجہ سے ضعیف قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ شیخ موصوف کے اس فتوے پر عمل ہی کیا جاسکتا ہے بلکہ اس کے بالکل برعکس اس حدیث پر عمل کرنا مستحب، مسنون اور ماجور عمل ہوگا۔ ان شاء اللہ البتہ یہ ضرور یاد رہے کہ ہمارے ہاں نماز تسبیح کی بابت جو افراط و تفریط لوگوں میں پایا جاتا ہے وہ قطعاً غیر شرعی بلکہ ایک بدعی عمل ہے یعنی اس نماز تسبیح کا باجماعت اہتمام کرنا، اشتہارات اور اعلانات کے ذریعے سے اس کی تشہیر کرنا اور لوگوں کو اس کی ادائیگی کی خصوصی دعوت دیتا، پھر نصف شب کے وقت یا اس کے قریب قریب مسجد کی بتیاں وغیرہ بجھا کر باجماعت ’’پرتکلف خشوع اور رقت‘‘ اپنے اوپر طاری کرنا اور بلند آواز سے گڑ گڑانا، بالخصوص رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی انمول راتیں اور قیمتی دن اس طرح کے خود ساختہ طریقوں میں ضائع کرنا یہ سب کچھ غیر شرعی اور من گھڑت انداز عبادت ہے لہٰذا ان تمام خرافات سے بچتے ہوئے، انفرادی طور پر سال بھر کے تمام شب و روز میں جب بھی اللہ تعالیٰ توفیق دیں اس اہم ترین نفلی اور مستحب عبادت کو بجا لایا جائے اور جس حد تک ممکن ہو اس کو سال بھر جاری رکھا جائے کیونکہ حدیث شریف سے یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص154

محدث فتویٰ

تبصرے