سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(200) تارک نماز کی سزا… ایک جھوٹی روایت

  • 12660
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-12
  • مشاہدات : 3789

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تارک نماز کی سزا کے بارے میں جھوٹی روایت کی بابت آپ کی کیا رائے ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

’’تارک نماز کی سزا‘‘ کے عنوان سے مجھے ایک پمفلٹ کے بارے میں علم ہوا ہے، جس میں یہ لکھا ہے کہ ’’نبیﷺ سے روایت ہے کہ جس نے نماز میں سستی کی تو اللہ تعالیٰ اسے پندرہ سزائیں دے گا‘‘ پھر ان پندرہ سزاؤں کو ذکر کرنے کے بعد آخر میں لکھا ہے، امید ہے کہ جو شخص بھی اس پمفلٹ کو پڑھے گا وہ اسے لکھ کر دیگر تمام مسلمانوں میں بھی پھیلائے گا۔ پھر لکھا ہے کہ ’’نیک کام کی ابتدا کرنے والے کے لیے خیر ہے‘‘ اس طرح مجھے ایک اور پمفلٹ کے بارے میں بھی علم ہوا ہے جسے قرآن مجید کی تین آیات کے ساتھ شروع کیا گیا ہے، جن میں سے پہلی آیت یہ ہے:

﴿بَلِ اللَّـهَ فَاعبُد وَكُن مِنَ الشّـٰكِر‌ينَ ﴿٦٦﴾... سورة الزمر

’’ بلکہ تو اللہ ہی کی عبادت کر اور شکر کرنے والوں میں سے ہو جا ۔‘‘

اور پھر لکھا ہے کہ یہ تین آیات چار دنوں کے بعد خیر و بھلائی لانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ لہٰذا اس کے پچیس نسخے لکھ کر ان لوگوں کو ارسال کیے جائیں، جن کو اس کی ضرورت ہو اور جو لوگ ایسا نہ کریں گے ان کو مختلف سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہ دونوں پمفلٹ چونکہ باطل اور منکر امور پر مشتمل ہیں، اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ ان کے بارے میں مطلع کردوں تاکہ وہ لوگ فریب خوردہ نہ ہوں جو شریعت مطہرہ کے احکام سے ناواقف ہیں، فاقول وباللہ التوفیق۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ طریقہ امور بدعت میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف علم کے بغیر بات منسوب کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں بیان فرمایا ہے کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿قُل إِنَّما حَرَّ‌مَ رَ‌بِّىَ الفَوٰحِشَ ما ظَهَرَ‌ مِنها وَما بَطَنَ وَالإِثمَ وَالبَغىَ بِغَيرِ‌ الحَقِّ وَأَن تُشرِ‌كوا بِاللَّـهِ ما لَم يُنَزِّل بِهِ سُلطـٰنًا وَأَن تَقولوا عَلَى اللَّـهِ ما لا تَعلَمونَ ﴿٣٣﴾... سورة الاعراف

’’ آپ فرمائیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو علانیہ ہیں اور جو پوشیده ہیں اور ہر گناه کی بات کو اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو کہ تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات لگادو جس کو تم جانتے نہیں۔‘‘

لہٰذا اس بندے کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے، جو اس منکر طریقے کو اختیار کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف کسی ایسی بات کو منسوب کرتا ہے، جو انہوں نے ارشاد ہی نہیں فرمائی۔ سزاؤں کی تحدید اور اعمال کی جزا کی تعیین کا تعلق تو علم غیب سے ہے اور کوئی شخص بھی اسے جان نہیں سکتا سوائے اس کے کہ رسول اللہﷺ نے بطریق وحی اس کی اطلاع دی ہو اور ان کتابچوں میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے، کتاب و سنت میں ان کے بارے میں کچھ بھی وارد نہیں ہے۔

اس کتابچے کے لکھنے والے نے رسول اللہﷺ کی طرف تارک نماز کے بارے میں جو یہ بات منسوب کی ہے کہ اسے پندرہ سزائیں دی جاتی ہیں، یہ ایک باطل اور جھوٹی روایت ہے، جیسا کہ حفاظ حدیث، مثلاً علامہ ذھبی نے ’’میزان‘‘ میں اور حافظ ابن حجر نے بیان فرمایا ہے۔

حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب ’’ لسان المیزان‘‘ میں محمد بن علی بن عباس بغدادی عطار کے حالات میں لکھا ہے کہ اس نے تارک نماز کے بارے میں ایک باطل حدیث ابوبکر بن زیاد نیساپوری کی طرف منسوب کی ہے، جسے اس سے محمد بن علی موازینی شیخ ابی نرسی نے روایت کیا ہے۔ محمد بن علی نے یہ گمان کیا ہے کہ ابن زیاد نے اسے ربیع سے، اس نے امام شافعی سے انہوں نے امام مالک سے انہوں نے سُمَیّ سے انہوں نے ابو صالح سے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے:

(من تهاون بصلاته عاقبه الله بخمس عشرة خصله...الحديث)

’’جس نے نماز میں سستی کی اللہ تعالیٰ  اسے پندرہ سزائیں دے گا...‘‘

یہ حدیث بالکل باطل اور صوفیہ کی وضع کردہ احادیث میں سے ہے۔ بحوث علمیہ وافتا کی فتویٰ کمیٹی نے اس حدیث کے باطل ہونے کا ایک فتویٰ ۱۰؍ ۶؍ ۱۴۰۱ھ کو بھی جاری کیا تھا لہٰذا ایک عاقل شخص کس طرح یہ پسند کرسکتا ہے کہ وہ کسی موضوع حدیث کو رواج دے جب کہ رسول اللہﷺ کی صحیح حدیث سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:

(مَنْ حَدَّثَ عَنِّي حَدِيثًا يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ، فَهُوَ أَحدُ  الْكَاذِبِينَ )( صحيح مسلم المقدمة باب وجوب الرواية عن الثقات وترك الكاذبين وسنن ابن ماجه السنه باب من حديث عن رسول الله........... الخ حديث:40ومسند احمد:حدیث:20‘14/5‘584‘250/4)

’’جوشخص مجھے سےکو ئی ایسی احدیث بیان کرے جس کے بارے میں وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ جھوٹی ہے تو بھی جھوٹوں میں سے ایک ہے۔‘‘

جھوٹی حدیث بیان کرنے کی ضرورت بھی آخر کیا ہے جب کہ نماز کی اہمیت اور اس کے تارک کی سزا کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے جو ثابت ہے، وہ کافی اور شافی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّ الصَّلوٰةَ كانَت عَلَى المُؤمِنينَ كِتـٰبًا مَوقوتًا ﴿١٠٣﴾... سورةالنساء

’’  یقیناً نماز مومنوں پر مقرره وقتوں پر فرض ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے جہنمیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:

﴿ما سَلَكَكُم فى سَقَرَ‌ ﴿٤٢ قالوا لَم نَكُ مِنَ المُصَلّينَ ﴿٤٣﴾... سورةالمدثر

’’ تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا (42) وه جواب دیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے ۔‘‘

ان آیات سے معلوم ہوا کہ جہنمیوں کی ایک نشانی ترک نماز بھی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿فَوَيلٌ لِلمُصَلّينَ ﴿٤ الَّذينَ هُم عَن صَلاتِهِم ساهونَ ﴿٥ الَّذينَ هُم يُر‌اءونَ ﴿٦ وَيَمنَعونَ الماعونَ ﴿٧﴾... سورةالماعون

’’ ان نمازیوں کے لئے افسوس (اور ویل نامی جہنم کی جگہ) ہے (4) جو اپنی نماز سے غافل ہیں (5) جو ریاکاری کرتے ہیں(6) اور برتنے کی چیز روکتے ہیں (7)۔‘‘

اسی طرح نبیﷺ نے فرمایا ہے:

(بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالْحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ ‏"‏‏.‏) صحيح البخاري الايمان باب دعاؤكم ايمانكم.....الخ حديث :8صحيح مسلم  باب بيان اركان الاسلام ودعائمه العظام حديث:16)

’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا ۔۔‘‘

نیز آپ نے یہ بھی فرمایا ہے:

(العَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلاَةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ.((جامع الترمذي الايمان باب ما جاء في ترك الصلاة حديث:2621ومسند احمد 355‘346/5)

’’ہمارے اور ان کےمابین جوعہد ہے وہ نماز ہے جو اسے ترک کردے وہ کا فر ہے۔‘‘

اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیات و احادیث ہیں جو کہ مشہور و معروف ہیں۔ دوسرا کتابچہ جسے کچھ آیات سے شروع کیا گیا ہے جن میں سے پہلی آیت یہ ہے:

﴿بَلِ اللَّـهَ فَاعبُد وَكُن مِنَ الشّـٰكِر‌ينَ ﴿٦٦﴾... سورة الزمر

’’ بلکہ تو اللہ ہی کی عبادت کر اور شکر کرنے والوں میں سے ہو جا -‘‘

اسے لکھنے والے نے ذکر کیا ہے کہ جو اسے تقسیم کرے گا اسے یہ اجر و ثواب حاصل ہوگا اور جو اس کی طرف توجہ نہ کرے گا تو اسے یہ عذاب ہوگا، تو یہ بھی ایک بے حد و حساب باطل اور بہت بڑا جھوٹ ہے۔ اس کا تعلق بھی ان جاہلوں اور بدعتیوں کے اعمال میں سے ہے، جو عامۃ المسلمین کو حکایات، خرافات اور باطل اقوال میں مشغول کرکے اس واضح اور بین حق سے دور کرنا چاہتے ہیں، جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ نے پیش کیا ہے کہ لوگوں کو جو بھی خیر و شر کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کی طرف سے ہے اور ہر خیر و شر کو صرف اور صرف وہی جانتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمـٰوٰتِ وَالأَر‌ضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّـهُ ۚ وَما يَشعُر‌ونَ أَيّانَ يُبعَثونَ ﴿٦٥﴾... سورةالنمل

’’کہہ دیجئے کہ آسمانوں والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا، انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھا کھڑے کیے جائیں گے۔؟‘‘

رسول اللہﷺسے قطعاً یہ ثابت نہیں ہے کہ جس نے تین یا اس سے زیادہ آیات لکھیں تو اسے یہ ثواب ملے گا اور جو اسے ترک کرے تو اسے یہ گناہ ملے گا، لہٰذا اس طرح کا دعویٰ کرنا کذب اور بہتان ہے، جسے یہ علم ہو جائے اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ان کتابچوں کو لکھے یا تقسیم کرے یا کسی بھی طرح ان کی ترویج و اشاعت میں حصہ لے۔ اگر کوئی شخص پہلے اس طرح کا کام کرچکا ہو تو اسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرنی چاہیے، اپنے فعل پر ندامت کا اظہار کرنا چاہیے اور یہ عزم کرنا چاہیے کہ آئندہ وہ اس طرح قطعاً نہیں کرے گا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی سے یہ دعا ہے کہ وہ ہم سب کو حق کو حق سمجھنے اور اس کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور باطل کو باطل سمجھنے اور اس سے اجتناب کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو ظاہری و باطنی فتنوں سے محفوظ رکھے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص151

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ