السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ قبر میں مدفون میت سے مدد مانگنا جائز ہے کیونکہ حدیث میں ہے:
«اذتحيرتم في الامور فاستعينو باهل القبور»
’’جب تم امور ومعلات میں پریشان ہوجاؤ تو اہل قبور سے مدد مانگو۔‘‘
کیا یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ ایک جھوٹی روایت ہے جسے غلط طور پر رسول اللہﷺ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ جیسا کہ کئی اہل علم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمه الله علیہ اسے ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’ یہ ایک جھوٹی حدیث ہے جسے محض کذب و افترا سے رسول اللہﷺ کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور اس پر حدیث کے تمام علما کا اجماع ہے۔ علما میں سے کسی نے بھی اسے روایت نہیں کیا اور حدیث کی قابل اعتماد کتابوں میں سے کسی بھی کتاب میں یہ روایت موجود نہیں ہے۔مجموع الفتاوی : 356/1
رسول اللہﷺ کی طرف منسوب یہ جھوٹی روایت کتاب و سنت کے بھی خلاف ہے کیونکہ کتاب و سنت میں تو یہ حکم ہے کہ عبادت اخلاص کے ساتھ صرف اور صرف اللہ وحدہ ہی کے لیے واجب ہے، اس کی ذات گرامی کے ساتھ شرک کرنا حرام ہے۔ اور اس میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ مردوں کو پکارنا، ان سے مدد مانگنا اور غم و فکر کے موقعوں پر ان سے فریاد کرنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ بہت بڑا شرک ہے جیسا کہ آسانی اور خوش حالی کی حالت میں بھی انہیں پکارنا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ شرک ہے۔ پہلے زمانے میں مشرکوں کا حال یہ تھا کہ جب مشکلات میں مبتلا ہوتے تو خالص اللہ کی عبادت کرتے اور جب مشکلات دور ہو جاتیں تو اللہ کے ساتھ شرک شروع کردیتے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿فَإِذا رَكِبوا فِى الفُلكِ دَعَوُا اللَّـهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ فَلَمّا نَجّىٰهُم إِلَى البَرِّ إِذا هُم يُشرِكونَ ﴿٦٥﴾... سورة العنكبوت
’’ پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اس کے لئے عبادت کو خالص کر کے پھر جب وه انہیں خشکی کی طرف بچا ﻻتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں۔‘‘
اس مفہوم کی اور بھی بہت سی آیات ہیں مگر اس دورِ آخر کے مشرک تو غمی اور خوشی کی ہر حالت میں شرک کرتے ہیں بلکہ شدائد و مشکلات کی حالت میں ان کے شرک میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ والعیاذ باللہ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اعتبار سے ان کا کفر پہلے لوگوں کے کفر سے بھی زیادہ اور سخت ہے حالانکہ:
﴿وَما أُمِروا إِلّا لِيَعبُدُوا اللَّـهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ حُنَفاءَ...٥﴾... سورة البينة
’’اور ان کو حکم تو یہی ہواتھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں اور یک سوہوکر۔‘‘
اور فرمایا:
﴿فَادعُوا اللَّـهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ وَلَو كَرِهَ الكـٰفِرونَ ﴿١٤﴾...سورة المؤمن
’’ تم اللہ کو پکارتے رہو اس کے لیے دین کو خالص کر کے گو کافر برا مانیں۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ذٰلِكُمُ اللَّـهُ رَبُّكُم لَهُ المُلكُ ۚ وَالَّذينَ تَدعونَ مِن دونِهِ ما يَملِكونَ مِن قِطميرٍ ﴿١٣﴾ إِن تَدعوهُم لا يَسمَعوا دُعاءَكُم وَلَو سَمِعوا مَا استَجابوا لَكُم ۖ وَيَومَ القِيـٰمَةِ يَكفُرونَ بِشِركِكُم ۚ وَلا يُنَبِّئُكَ مِثلُ خَبيرٍ ﴿١٤﴾... سورة الفاطر
’’ یہی ہے اللہ تم سب کا پالنے واﻻ اسی کی سلطنت ہے۔ جنہیں تم اس کے سوا پکار رہے ہو وه تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں (13) اگر تم انہیں پکارو تو وه تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گے، بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا صاف انکار کرجائیں گے۔ آپ کو کوئی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا ۔‘‘
یہ آیت عام ہے اور ان سب کو شامل ہے، جن کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جائے خواہ وہ انبیاء ہوں یا اولیاء یا کوئی اور اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ مشرکوں کا ان کو پکارنا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ شرک ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حسب ذیل آیت کریمہ میں اسے کفر بھی قرار دیا ہے:
﴿وَمَن يَدعُ مَعَ اللَّـهِ إِلـٰهًا ءاخَرَ لا بُرهـٰنَ لَهُ بِهِ فَإِنَّما حِسابُهُ عِندَ رَبِّهِ ۚ إِنَّهُ لا يُفلِحُ الكـٰفِرونَ ﴿١١٧﴾... سورة المؤمنون
’’ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں، پس اس کا حساب تو اس کے رب کے اوپر ہی ہے۔ بےشک کافر لوگ نجات سے محروم ہیں ‘‘
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب