السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رسول اللہﷺکے اس ارشاد کہ « لَا طِیرَةَ وَلَا هَامَةَ» ’’ بد شگونی اور الو کی نحوست نہیں ہے‘‘ اور اس ارشاد میں کس طرح تطبیق ہوگی کہ « اِنْ کَانَتِ الطِّیَرَةُ فَفِی الْبَیْتِ وَالْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ »’’ اگر بدشگونی ہے تو وہ گھر، عورت اور گھوڑے میں ہے‘‘ راہنمائی فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بدشگونی کی دو قسمیں ہیں پہلی قسم شرک ہے اور وہ ہے مرئیات یا مسموعات سے بدشگونی لینا تو یہ جائز نہیں ہے اور دوسری قسم اس سے مستثنیٰ ہے اور یہ ممنوع بدشگونی میں داخل نہیں ہے، اسی وجہ سے صحیح حدیث میں ہے:
(وَالشُّؤْمُ فِي ثَلاَثٍ فِي الْمَرْأَةِ، وَالدَّارِ، وَالدَّابَّةِ ")(صحیح البخاري الطب باب الطیرہ حدیث:وصحیح مسلم السلام باب الطیرۃوالفال...الخ حدیث :2225)
’’بد شگونی کی کوئی اصل نہیں اور اگر نحوست ہوتی تو یہ صرف تین چیزوں میں ہوتی ہے۔ عورت میں ، گھر میں اورگھوڑے میں-‘‘
یہ تین چیزیں مستثنیٰ ہیں اور یہ ممنوع بدشگونی میں داخل نہیں ہیں کیونکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بعض عورتوں یا بعض جانوروں میں بدشگونی اور شر، اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے تو یہ ایک قدری شر ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص اس گھر کو چھوڑ دے، جو مناسب نہ ہو یا اس عورت کو طلاق دے دے، جو مناسب نہ ہو یا اس جانور کو چھوڑ دے، جو مناسب نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ بدشگونی نہیں ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب