السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسلمان کو چاہیے کہ وہ رسول اللہﷺ کی طرف صرف اسی قول کو منسوب کرے جو صحیح ہو اور جس کی نسبت آپ کی طرف ثابت ہو، تو کیا اس وقت اور بھی زیادہ شدید احتیاط کی ضرورت نہیں جب کسی قول کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جا رہا ہو؟ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف جو یہ قول منسوب کیا جاتا ہے:
«ومن عصاني وهو يعرفني سلطت عليه من لايعرفني»
’’جس نےمجھے جانتے ہوئے نافرمانی کی تو اس پر میں کسی ایسے شخص کو مسلط کردوں گا جومجھے نہیں جانتا ہوگا۔‘‘
اس کے بارے میں راہنمائی فرما کر شکریہ کا موقع بخشیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی طرف صرف اس بات کو منسوب کرے، جس کے بارے میں اسے علم ہو کہ یہ صحیح ہے اور اگر اسے شک ہو تو پھر واجب یہ ہے کہ بات پورے جزم اور وثوق سے بیان نہ کرے بلکہ یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح روایت کیا جاتا ہے یا رسول اللہﷺ سے ’’ اس طرح‘‘ روایت کیا گیا ہے، یعنی اس طرح صیغۂ تمریض استعمال کرے، جزم اور وثوق کے ساتھ بات بیان نہ کرے جیسا کہ اہل علم نے اسے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہ اثر بھی اسی قبیل میں سے ہے، جس کے بارے میں آپ نے پوچھا ہے، ہمیں اس کا کوئی اصل معلوم نہیں۔ یہ صرف وعظ و نصیحت کی کتابوں میں ہے یا واعظوں کی زبانوں سے سنا ہے لہٰذا اسے جزم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ہے، لہٰذا واجب یہ ہے کہ اسے مذکورہ بالا انداز میں صیغۂ تمریض کے ساتھ بیان کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہر اس کام کی توفیق عطا فرمائے جو اس کی رضا پر مبنی ہو۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب