السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
كيا فرماتے ہيں علمائے كرام كہ زيد نے نماز ميں جان بوجھ كر نگاه اٹھائی ، اور اوپر كی طرف ديكھنے لگا ، احاديث ميں دوران نماز اوپر ديكھنے سے سخت منع آيا ہے تو كيا زيد كی نماز اس ممنوع كام كے ارتكاب سے فاسد ہوگئی ہے يا نہيں۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!نماز میں نگاہ اوپر اٹھانا ایک مکروہ اور ناپسندیدہ عمل ہے،اس سے نماز کی یکسوئی میں تو فرق آجاتا ہے ،مگر نماز باطل نہیں ہو تی ہے۔نبی کریم نے فرمایا: «مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَرْفَعُونَ أَبْصَارَهُمْ إِلَى السَّمَاءِ فِي صَلاَتِهِمْ» ، فَاشْتَدَّ قَوْلُهُ فِي ذَلِكَ، حَتَّى قَالَ: «لَيَنْتَهُنَّ عَنْ ذَلِكَ أَوْ لَتُخْطَفَنَّ أَبْصَارُهُمْ»(بخاری:750)لوگوں کا کیا معاملہ ہے کہ وہ نماز میں اپنی آنکھوں کو آسمان کی طرف اٹھا لیتے ہیں،(پھر سختی کرتے ہوئے فرمایا) یہ لوگ اس عمل سے ضرور باز آ جائیں ورنہ ان کی آنکھیں اچک لی جائیں گی۔ اس حدیث مبارکہ کی شرح میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں۔ قال ابن بَطّال: أجمعوا على كراهة رفع البصر في الصلاة(فتح الباری:2/233)ابن بطال فرماتے ہیں کہ نماز میں نظر اٹھانے کی کراہت پر سب کا اجماع ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتوی کمیٹیمحدث فتوی |