سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(146) اللہ تعالیٰ شرابی پر لعنت فرمائے

  • 12620
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1231

سوال

(146) اللہ تعالیٰ شرابی پر لعنت فرمائے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

« لَعَنَ اللّٰهُ الشَّارِبَ قَبْلَ الطَّالِبِ» ’’ اللہ تعالیٰ شارب پر طالب سے قبل لعنت فرمائے‘‘ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ یہ سوال اس لیے کیا ہے کہ یہ الفاظ زبان زد عام و خاص ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ حدیث نبی اکرمﷺ سے ثابت نہیں ہے، البتہ یہ ان احادیث میں سے ہے، جو اگرچہ زبان زد عام و خاص ہیں مگر ان کا کوئی اصل نہیں ہے۔ انسان کے لیے واجب ہے کہ نبیﷺ کی طرف جو قول یا فعل منسوب ہو، تو اس کی تحقیق کرے کیونکہ نبیﷺ کی طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کرنا اس طرح نہیں ہے جیسے ہم میں سے کسی کی طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کردی جائے کیونکہ آپ کی طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کرنا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شریعت کے بارے میں جھوٹ بولنا ہے۔ اسی طرح کئی اور احادیث بھی مشہور ہیں، جن کا کوئی اصل نہیں مثلاً:

(حب الوطن من الايمان)(كشف الخفاءللعجلوني :468‘95/1)

’’وطن کی محبت ایمان ہے۔‘‘

(خير الاسماء ماحمد وما عبد)كشف الخفاء للعجلوني :468‘95/1)

’’بہترین نام وہ ہے جس میں  اللہ تعالیٰ کی حمدیا عبودیت کو بیان کیا گیاہو۔‘‘

(المعده بيت الداء والحمية راس الدواء)

معده بيماري كا گھر ہے اور پر ہیز اصل دوا ہے۔‘‘

اس کی اور بہت سی مثالیں ہیں۔ انسان کے لیے واجب ہے کہ وہ نبی کریمﷺکی طرف جھوٹی بات منسوب کرنے سے اجتناب کرے تاکہ وہ اس وعید شدیدکا مصداق نہ بنے:

«مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ»(صحيح البخاري العلم باب اثم من كذب علي النبي ﷺحديث:110وصحيح مسلم االمقدمه باب تغليظ الكذب علي رسول الله ﷺحدیث :3)

’’جو جان بوجھ کر  میر ی طرف جھوٹ بات منسوب کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم سمجھے۔‘‘

نیز رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«مَنْ حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ، فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ»(صحيح مسلم المقدمه باب وجوب الرواية عن الثقات وترك الكاذبين.... الخ)

’’جوشحض میر ے حوالے سے کوشی حدیث بیان کرے اور اس کو بیان کرے اور اس  کو معلوم ہو کہ یہ جھوٹی روایت ہے تو وہ بھی دو جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔‘‘

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص126

محدث فتویٰ

تبصرے