السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
علماء جو یہ فرماتے ہیں تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے کہ یہ حدیث مرفوع ہے یا موضوع ہے اور کبھی بعض احادیث کے آخر میں اس طرح کی عبارت لکھی ہوتی ہے کہ فلاں شخص … مثلاً امام ترمذی یا امام نسائی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب یا منکر ہے حالانکہ یہ احادیث نبوی یا قدسی ہوتی ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
’’ حدیث مرفوع‘‘ وہ ہوتی ہیں جس کی اضافت نبیﷺ کی طرف کی گئی ہو، خواہ وہ آپ کا قول ہو یا فعل اور اگر وہ صحابی کا کلام ہو تو اسے ’’موقوف‘‘ اور اگر تابعی کا کلام ہو تو اسے ’’ مقطوع‘‘ کہتے ہیں۔ ’’ حدیث موضوع‘‘ اس حدیث کو کہتے ہیں جو بالکل جھوٹی ہو اور اسے از راہ کذب نبیﷺ کی طرف منسوب کیا گیا ہو۔ ایسی حدیث کو روایت کرنا جائز نہیں الا یہ کہ ساتھ ہی یہ بھی بیان کردیا جائے کہ یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے۔ ’’حدیث غریب‘‘ وہ ہوتی ہے جو صرف ایک ہی شخص کے طریق سے مروی ہو، یعنی اسے صرف ایک ہی صحابی نے روایت کیا ہو اور پھر صحابی سے بھی صرف ایک ہی راوی نے روایت کیا ہو۔ ’’ منکر‘‘ سے مراد اگر حدیث ہو تو اس سے مراد وہ حدیث ہوتی ہے، جو احادیث ثابتہ کے مخالف ہو کیونکہ اسے کسی ضعیف راوی نے روایت کیا ہوتا ہے اور اگر اس سے مراد راوی ہو تو وہ ضعیف الروایۃ ہوتا ہے۔ سائل کو چاہیے کہ وہ مزید معلومات کے لیے مصطلح الحدیث کی کتب کا مطالعہ کرے اور اس فن کے علماء سے مزید معلومات حاصل کرے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب