السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے رسول اللہﷺ کی یہ حدیث سنی تھی:
«أَنْتَ وَمَالُكَ لِأَبِيكَ»سنن ماجه التجارات ماللرجل من مال ولده حديث:2292)
’’تواور تیر مال تیرے باپ کا ہے۔‘‘
اور اب یہ سنا ہے کہ اس حدیث میں ضعف ہے۔ لہٰذا آپ سے درخواست ہے کہ اس کے بارے میں راہنمائی فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ حدیث ضعیف نہیں ہے کیونکہ اس کے شواہد موجود ہیں لیکن اس کے معنی یہ ہیں کہ جب انسان کے پاس مال ہو تو اس کے باپ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس مال میں سے جس قدر چاہے لے سکتا ہے لیکن اس کے لیے ایک بلکہ کئی شرطیں ہیں، جو کہ حسب ذیل ہیں:
1… مال لینے سے بیٹے کو نقصان نہ ہو، مثلاً باپ اگر اس لحاف کو لینا چاہے، جسے بیٹا سردی سے بچنے کے لیے استعمال کر رہا ہو یا اس کھانے کو لے لے جسے وہ بھوک مٹانے کے لیے کھا رہا ہو تو باپ کے لیے یہ جائز نہ ہوگا۔
2… بیٹے کی اس مال سے حاجت متعلق نہ ہو، مثلاً اگر بیٹے کے پاس لونڈی ہو تو باپ کے لیے اسے لیناجائز نہیں کیونکہ بیٹے کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر بیٹے کے پاس صرف ایک ہی گاڑی ہو جسے وہ آمد و رفت کے لیے استعمال کرتا ہو اور اسے دوسری گاڑی خریدنے کی استطاعت نہ ہو تو اس گاڑی کو لینا باپ کے لیے کسی حال میں بھی جائز نہیں ہوگا۔
3… اپنے کسی بیٹے کا مال اس لیے نہ لے کہ وہ کسی دوسرے بیٹے کو دے دے کیونکہ اس طرح تو اس کے بیٹوں میں عداوت پیدا ہوگی اور بعض کو بعض پر فضیلت دینا بھی لازم آئے گا بشرطیکہ دوسرا بیٹا محتاج نہ ہو اور اگر وہ محتاج ہو تو پھر اس میں تفصیل نہیں ہے اور اس صورت میں اسے دینا باپ کے لیے واجب ہے۔
بہرحال یہ حدیث حجت ہے، علماء نے اسے قبول کیا ہے اور اس سے استدلال کیا ہے لیکن کچھ شرائط ہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ باپ کے لیے بیٹے کے مال کو اس طرح لینا جائز نہیں ہے جس سے بیٹے کو نقصان پہنچے، نیز اس مال کو نہ لے جس کی خود بیٹے کو بھی ضرورت ہو نیز وہ ایک بیٹے کا مال لے کر دوسرے بیٹے کو نہ دے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب