السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس حدیث کے کیا معنی ہیں؟
بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِيبًا، ثُمَّ يَعُودُ غَرِيبًا كَمَا بَدَأَ، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ
’’اسلام کاغربت سےآغاز ہوا یہ غریب ہی کی طرف لوٹے گا جس طرح کہ آغاز ہواتھا۔پس غرباء کےلیے خوش خبری ہے۔‘‘
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام کا آغاز غربت سے ہوا جیسا کہ مکہ مکرمہ میں اور ہجرت کے آغاز میں مدینہ منورہ میں حال تھا کہ کم لوگ ہی اسلام کو جانتے تھے اور اس کے مطابق عمل کرتے تھے۔ پھر اسلام پھیل گیا اور لوگ فوج در فوج اور موج در موج حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے حتیٰ کہ یہ تمام ادیان پر غالب آگیا۔ مگر آخر زمانے میں یہ پھر غریب ہو جائے گا اسی طرح جس طرح آغاز میں تھا کہ اسے حقیقی طور پر سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے والے لوگ کم ہوں گے اور وہ غرباء ہوں گے، اس لیے فرمایا:
(فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ(صحیح مسلم الايمان باب بيان ان الاسلام بداء غريبا وسيعود غريبا وانه يارز بين المسجدين ح:145)
’’غرباء کےلیے خوش خبری ہے۔‘‘
صحیح مسلم میں تو نہیں بعض دیگر کتب میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ! غرباء کون ہیں؟ فرمایا:
(الَّذِينَ يُصْلِحُونَ إِذَا فَسَدَ النَّاسُ،)(مسند احمد:73/4)
’’جو اس وقت نیک ہوں گے جب لوگ برے جائیں گے۔‘‘
ایک اور روایت میں الفاظ یہ ہیں:
(الَّذِينَ يُصْلِحُونَ مَا أَفْسَدَ النَّاسُ مِنْ بَعْدِي مِنْ سُنَّتِي.)(جامع الترمذي الايمان باب ماجاء ان الاسلام بداغريبا حديث:2630وشرح السنه للبغوي :121/1)
’’میرے بعدے لوگ میری سنت میں جوبگا ڑ پیدا کیا ہوگا یہ لوگ اس اصلاح کریں گے۔‘‘
ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے تمام مسلمان بھائیوں کو ان میں سے بنا دے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب