سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(139) حدیث کی تحقیق’اگر تم اللہ پر توکل کرو‘

  • 12613
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 4587

سوال

(139) حدیث کی تحقیق’اگر تم اللہ پر توکل کرو‘

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ اس حدیث کی اس طرح شرح فرما دیں کہ اس کا صحیح صحیح مفہوم سمجھ میں آجائے۔ حدیث یہ ہے:

«لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَوَكَّلُونَ عَلَى اللهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرُزِقْتُمْ كَمَا يُرْزَقُ الطَّيْرُ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا»


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:

(لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَوَكَّلُونَ عَلَى اللهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرُزِقْتُمْ كَمَا يُرْزَقُ الطَّيْرُ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا.)(جامع الترمذي الزهد باب في التوكل علي الله حديث:2344وسنن ابن ماجه حديث:4164ومسند احمد:52و30/1 وصحيح ابن حبان حديث:2548والمستدرك علي الصحين للحاكم :318/4)

’’اگؤ تم اللہ  تعالیٰ پر اس طرح توکل کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دے جس طرح پرندوں کو رزق دیتا ہے کہ صبح خالی پیٹ نکلتے اورشام کو سیر ہوکر واپس لوٹتے ہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا اور امام ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔

توکل کی حقیقت یہ ہے کہ دنیا و آخرت کے امور میں خیر و بھلائی کے حصول اور نقصان کے دور کرنے کے لیے دل کا اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی پر سچا اعتماد ہو۔ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ لوگ اگر اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی پر اپنے دل سے سچا توکل رکھیں، نفع کے حاصل کرنے اور نقصان کے دور کرنے میں صرف اسی پر کلی طور پر اعتماد کریں اور مفید اسباب کو بھی اختیار کریں تو وہ ادنیٰ سبب سے بھی ان کے پاس اسی طرح رزق کو لے آئے گا، جس طرح وہ پرندوں کو صبح و شام کی تلاش کے نتیجہ میں رزق دیتا ہے۔ پرندوں کا صبح و شام اپنے گھونسلوں سے نکلنا بھی تلاش رزق ہی کی ایک قسم ہے، گو یہ بہت معمولی کوشش ہے۔ ان اسباب کو اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے، جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے امور کو وابستہ کردیا ہے اور جن کے ساتھ کائنات میں اللہ تعالیٰ کی سنت جاری و ساری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے توکل کے ساتھ ساتھ اسباب کو اختیار کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ اعضاء کے ساتھ اسباب کے لیے کوشش کرنا اطاعت ہے جب کہ دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا ایمان ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَعَلَى اللَّـهِ فَليَتَوَكَّلِ المُؤمِنونَ ﴿١١﴾... سورة ابراهيم

’’  اور ایمان والوں کو صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے ان اسباب کو اختیار کرنے کے ساتھ جن کا اس نے حکم دیا ہے، توکل کو تقویٰ قرار دیا ہے، جب کہ اسباب کے بغیر توکل محض عجز اور درماندگی ہے، گو اس میں توکل کی ادنیٰ سی جھلک ہے۔ لہٰذا ہر انسان کو چاہیے کہ وہ عجز و درماندگی کو توکل اور توکل کو عجز و درماندگی نہ بننے دے بلکہ توکل کو بھی ان جملہ اسباب میں سے قرار دے، جن کے بغیر مقصود حاصل نہیں ہوسکتا۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص121

محدث فتویٰ

تبصرے