السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا یہ صحیح حدیث ہے یا کسی کا قول ہے کہ «لَا صَلٰوةَ لِجَارِ الْمَسْجِدِ اِلاَّ فِی الْمَسْجِدِ»؟ کیا اس میں تشدد نہیں ہے جب کہ دین آسان ہے، مشکل نہیں ہے۔ آپ کا اس کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
«لَا صَلٰوةَ لِجَارِ الْمَسْجِدِ اِلاَّ فِی الْمَسْجِدِ»(سنن الدارقطني 420/1حديث 1537:1538والسنن الكبري للبيهقي :75/3والمستدرك علي الصحيحين للحاكم:246/1)
’’مسجد کے پڑوسی کی مسجد کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔‘‘
اس حدیث کو امام دارقطنی، حاکم، اور بیہقی نے روایت کیا ہے مگر سب کی سندیں ضعیف ہیں۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اگرچہ یہ روایت لوگوں میں مشہور ہے مگر اس کی کوئی سند ثابت نہیں ہے، لہٰذا یہ اہل علم کے نزدیک ضعیف ہے۔ اگر اسے صحیح فرض بھی کرلیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ مسجد کے پڑوسی کی نماز مسجد ہی میں مکمل ہوگی کیونکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ منفرد طور پر پڑھنے والے کی نماز بھی صحیح ہے البتہ شرعی عذر کے بغیر جماعت ترک کرنے والا گناہ گار ہے کیونکہ مسجد میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر باجماعت نماز ادا کرنا واجب ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث کے علاوہ دیگر بہت سی احادیث سے یہ ثابت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يَأْتِهِ، فَلَا صَلَاةَ لَهُ، إِلَّا مِنْ عُذْرٍ» (سنن ابن ماجه المساجد باب التلغيظ في التخلف عن الجماعة حديث :793وسنن الدارقطني :421:420/1والمستدرك علي الصحيحن للحاكم :245/1وصحيح ابن حبان حديث:466)
’’جو شخص اذان سنے اور مسجد میں نہ آئے تو عذر کے بغیر اس کی نماز نہیں ہوگی۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، دارقطنی، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے اور اس کی سند امام مسلم کی شرط کے مطابق ہے۔ نبیﷺ نے اس نابینا شخص کو بھی گھر میں نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی تھی، جس نے آپ سے اجازت مانگی تھی اور یہ عذر بھی پیش کیا تھا کہ اس کے پاس کوئی معاون نہیں ہے تو آپ نے فرمایا: ’’ کیا آپ اذان کی آواز سنتے ہیں؟‘‘ اس نے جواب دیا: جی ہاں۔ تو آپ نے فرمایا: ’’ پھر اس آواز پر لبیک کہو۔‘‘
(۱) صحیح مسلم، المساجد، باب یجب اتیان المسجد علی من سمع النداء حدیث: 653
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب