السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا لوگوں کی یہ بات صحیح ہے: ’’ جب نماز عشاء کا وقت ہو جائے اور رات کا کھانا حاضر ہو تو کھانے کو نماز پر مقدم کرلو۔ ‘‘ یہ کلمہ لوگوں کی زبان پر عام ہے لیکن مجھے نہیں معلوم کہ یہ صحیح ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ صحیح ہے، نبی کریمﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
«إِذَا قُدِّمَ العَشَاءُ، فَابْدَءُوا بِهِ قَبْلَ أَنْ تُصَلُّوا صَلاَةَ المَغْرِبِ، وَلاَ تَعْجَلُوا عَنْ عَشَائِكُمْ»(صحيح البخاري الاذان باب اذا حضر الطعام واقيمت الصلاةحديث 672وصحيح مسلم المساجد باب كراهية الصلاة بحضرة الطعام... الخ حديث 557)
’’جب شام كاكھانا سامنے رکھ دیا جائے تو نماز مغرب سے پہلے کھانا کھاؤ اور اپنا کھانا چھوڑ کر نماز کے لیے عجلت نہ کرو۔‘‘
یعنی جب شام کا کھانا تیار ہو، انسان کو کھانے کی طلب بھی ہو تو وہ نماز کے لیے جانے سے پہلے کھانا کھالے کیونکہ جب نماز سے پہلے کھانا تیار ہو جائے تو انسان کی توجہ اس کی طرف مبذول ہوگی جس کی وجہ سے نماز میں کمی واقع ہوگی، لہٰذا نبیﷺ نے فرمایا:
«لَا صَلَاةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ، وَلَا هُوَ يُدَافِعُهُ الْأَخْبَثَانِ»(صحیح مسلم المساجد باب کراهة الصلاة بحضرة الطعام..الخ حديث 560)
’’کھانے کی موجودگی میں نماز نہیں ہوتی اورنہ اس وقت جب اسے بول براز کا تقاضا ہو‘‘
یہاں اس طرف اشارہ کرنا بھی واجب ہے کہ آدمی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کھانے کا ہمیشہ وہ وقت نہ ہو جو نماز کا بھی وقت ہو کیونکہ اس طرح نماز باجماعت ادا نہیں کی جاسکتی۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب