السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
امید ہے درج ذیل احادیث کے بارے میں راہنمائی فرمائیں گے، کیا یہ صحیح ہیں؟
(من حج ولم يزرني فقد جفاني)
(مَنْ زَارَنِي بَعْدَ مَوْتِي ، فَكَأَنَّمَا زَارَنِي فِي حَيَاتِي )
من زارني بالمدينة محتسبًا كنت له شفيعًا شهيدًا يوم القيامة
یہ احادیث بعض کتب میں مذکور ہیں جس کی وجہ سے اشکال اور رائے میں یہ اختلاف پیدا ہوا کہ ایک رائے ان احادیث کی تائید میں ہے اور دوسری ان کی تائید میں نہیں ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ان میں سے پہلی حدیث کو ابن عدی اور دارقطنی نے بطریق عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرمﷺسے اس طرح روایت کیا ہے:
(من حج ولم يزرني فقد جفاني) (الكامل لابن عدي :2480وعنه ابن الجوزي في الوضوعات:128‘127/2)
’’جس نے حج کیا اور میری زیارت نہ کی تو اس نے مجھ سے جفا کی ۔‘‘
یہ حدیث ضعیف بلکہ موضوع یعنی جھوٹی اور من گھڑت ہے، کیونکہ اس کی سند میں محمد بن نعمان بن شبل باھلی ہے، جو اپنے باپ سے روایت کرتا ہے اور یہ دونوں راوی بے حد ضعیف ہیں۔ امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں طعن نعمان پر نہیں بلکہ ابن نعمان پر ہے۔ اس حدیث کو بزار نے بھی روایت کیا ہے اور اس کی سند میں ابراہیم غفاری ضعیف ہے۔ امام بیہقی نے اسے بطریق حضرت عمر روایت کیا اور فرمایا کہ اس کی سند مجہول ہے۔
دوسری حدیث کو امام دارقطنی نے آل حاطب کے ایک آدمی سے روایت کیا ہے جو اسے انہی الفاظ کے ساتھ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتا ہے (۱)مگر اس روایت میں یہ آدمی مجہول ہے۔ اسے ابو یعلیٰ نے اپنی مسند میں اور ابن عدی نے اپنی کامل میں بھی روایت کیا ہے (۲) مگر اس کی سند میں حفص بن داؤد ہے، جو کہ ضعیف الحدیث ہے۔
(۱) سنن دارقطنی: 278/2، حدیث: 2668
(۲) الکامل لابن عدی : 790/2
تیسری حدیث کو ابن ابی فدیک رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا ہے(۳) اس کی سند میں سلیمان بن یزید کعبی بطریق عمر ضعیف ہے۔ نیز اس کی سند میں ایک اور مجہول راوی بھی ہے۔ البتہ ایسی صحیح احادیث بھی ہیں جن میں یہ ہے کہ عبرت، نصیحت اور میت کی خاطر دعا کے لیے (قبرستان کی) زیارت کی جائے، مگر خاص طور پر رسول اللہﷺ کی قبر کی زیارت کے لیے جس قدر بھی روایات ہیں، وہ سب کی سب ضعیف ہیں بلکہ کہا گیا ہے کہ وہ موضوع ہیں۔ جو شخص زیارت قبور یا رسول اللہﷺ کی قبر کی شرعی زیارت کی رغبت کرے یعنی یہ زیارت عبرت، نصیحت، میت کے لیے دعا، نبیﷺ کی ذات گرامی کے لیے درود پڑھنے اور صاحبین کے لیے ترضی (دعا کرنے) پر مشتمل ہو، اس میں شدر حال نہ ہو محض زیارت قبور ہی کے لیے سفر نہ ہو، تو ایسی زیارت مشروع ہے اور اس میں اجر و ثواب کی امید ہے۔
(۳) تاریخ جرجان ، ص : 434، 784
اگر کوئی شخص شدر حال یا محض زیارت قبور ہی کے لیے سفر اختیار کرے تو یہ جائز نہیں کیونکہ نبی اکرمﷺنے خود یہ ارشادِ فرمایا ہے:
( لاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ: المَسْجِدِ الحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسْجِدِ الأَقْصَى )((صحیح البخاری فضل الصلاۃ فی مسجد مكة والمدينة باب فضل الصلاة في مسجد مكةوالمدينه حديث 1189 وصحيح مسلم الحج باب فضل المساجد الثلاة حديث 1397 والفظ له)
تین مسجدوں کے سوا اور کسی مسجد کیلئے شدرحال نہ کیا جائے(1) میری یہ مسجد(2) مسجد حرام اور(3) مسجد اقصیٰ۔‘‘
نیز آپ نے فرمایا:
(« لا تتخذوا قبري عيداً ، ولا تجعلوا بيوتكم قبوراً ، وحيثما كنتم فصلّوا علّي فإنّ صلاتكم تبلغني )(سنن ابي داود المناسك باب وزيارة القبور حديث 2042ومسند احمد 367/2والفظ له)
’’میر قبر کو میلہ اور اپنے گھروں کو قبریں بنانا اور تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر دورد پڑھنا تمہار دورد مجھے پھنچایا جائے گا۔‘‘
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب