السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مندرجہ ذیل آیت کریمہ کے کیا معنی ہیں؟
﴿وَيَسـَٔلونَكَ عَن ذِى القَرنَينِ ۖ قُل سَأَتلوا عَلَيكُم مِنهُ ذِكرًا ﴿٨٣﴾... سورة الكهف
’’ آپ سے ذوالقرنین کا واقعہ یہ لوگ دریافت کر رہے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ میں ان کا تھوڑا سا حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں۔‘‘
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس آیت کریمہ میں قریش کے ایک سوال کا ذکر ہے۔ انہوں نے نبی اکرمﷺ سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کیا تھا۔ ذوالقرنین کا قصہ خصوصاً اہل کتاب کے ہاں مشہور ہے۔ یہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے عہد میں ایک نیک بادشاہ تھا۔ اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے آپ کے ساتھ بیت اللہ کا طواف بھی کیا تھا۔ (۲)
(۲) تفسیر طبری: 127/15وابن کثیر : 76/3
اس نیک آدمی کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں بڑی دسترس عطا فرمائی تھی اور انہیں حکومت کے ایسے تمام اسباب عطا فرمائے تھے، جن کی وجہ سے وہ دشمنوں پر غلبہ و تسلط حاصل کرلیتے تھے، انہوں نے سفر کا ایک راستہ اختیار کیا، یعنی ایک ایسے راستہ کو اختیار کیا جو انہیں منزل مقصود تک پہنچا دے:
﴿حَتّىٰ إِذا بَلَغَ مَغرِبَ الشَّمسِ وَجَدَها تَغرُبُ فى عَينٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِندَها قَومًا...﴿٨٦﴾... سورة الكهف
’’ یہاں تک کہ سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچ گیا اور اسے ایک دلدل کےچشمے میں غروب ہوتا ہوا پایا اور اس چشمے کے پاس ایک قوم کو بھی پایا ۔‘‘
انہوں نے اس قوم پر غلبہ و تسلط حاصل کرلیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے بارے میں اختیار دیتے ہوئے فرمایا:
﴿قُلنا يـٰذَا القَرنَينِ إِمّا أَن تُعَذِّبَ وَإِمّا أَن تَتَّخِذَ فيهِم حُسنًا ﴿٨٦﴾... سورة الكهف
’’ ہم نے فرما دیا کہ اے ذوالقرنین! یا تو تو انہیں تکلیف پہنچائے یا ان کے بارے میں تو کوئی بہترین روش اختیار کرے۔‘‘
﴿قالَ أَمّا مَن ظَلَمَ فَسَوفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلىٰ رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذابًا نُكرًا ﴿٨٧﴾ وَأَمّا مَن ءامَنَ وَعَمِلَ صـٰلِحًا فَلَهُ جَزاءً الحُسنىٰ ۖ وَسَنَقولُ لَهُ مِن أَمرِنا يُسرًا ﴿٨٨﴾... سورة الكهف
’’ اس نے کہا کہ جو ظلم کرے گا اسے تو ہم بھی اب سزا دیں گے، پھر وه اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جائے گا اور وه اسے سخت تر عذاب دے گا (87) ہاں جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرے اس کے لئے تو بدلے میں بھلائی ہے اور ہم اسے اپنے کام میں بھی آسانی ہی کا حکم دیں گے ۔‘‘
پھر انہوں نے سورج کے طلوع ہونے کے مقام کی طرف رخ کیا:
﴿حَتّىٰ إِذا بَلَغَ مَطلِعَ الشَّمسِ وَجَدَها تَطلُعُ عَلىٰ قَومٍ لَم نَجعَل لَهُم مِن دونِها سِترًا ﴿٩٠﴾... سورةالكهف
’’ یہاں تک کہ جب سورج نکلنے کی جگہ تک پہنچا تو اسے ایک ایسی قوم پر نکلتا پایا کہ ان کے لئے ہم نے اس سے اور کوئی اوٹ نہیں بنائی۔‘‘
جن کے لیے ہم نے سورج کے اس طرف کوئی اوٹ نہیں بنائی تھی جو ان کے اور سورج کی گرمی کے مابین حائل ہوتی، یعنی وہاں نہ کوئی عمارت تھی اور نہ درخت، لہٰذا دن کو وہ غاروں اور کہفوں میں رہتے اور رات کو باہر نکل کر رزق تلاش کرتے۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کے تمام احوال سے باخبر تھا، جو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم و ہدایت کی روشنی میں چلتا تھا جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿كَذٰلِكَ وَقَد أَحَطنا بِما لَدَيهِ خُبرًا ﴿٩١﴾... سورة الكهف
’’ واقعہ ایسا ہی ہے اور ہم نے اس کے پاس کی کل خبروں کا احاطہ کر رکھا ہے۔‘‘
انہوں نے ایک اور سفر اختیار کیا:
﴿حَتّىٰ إِذا بَلَغَ بَينَ السَّدَّينِ وَجَدَ مِن دونِهِما قَومًا لا يَكادونَ يَفقَهونَ قَولًا ﴿٩٣﴾... سورة الكهف
’’ یہاں تک کہ جب دو دیواروں کے درمیان پہنچا ان دونوں کے پرے اس نے ایک ایسی قوم پائی جو بات سمجھنے کے قریب بھی نہ تھی ۔‘‘
اس لیے کہ وہ عجمی تھے، ان کی زبان ناقابل فہم تھی اور نہ وہ دوسروں کی زبان کو سمجھتے تھے لیکن انہوں نے اس نیک بادشاہ ذوالقرنین سے یہ شکایت کی کہ یاجوج اور ماجوج زمین میں فساد کرتے رہتے ہیں اور یہ دونوں بنو آدم ہی میں سے دو امتیں ہیں، جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ (۱)
(۱) ابوداود الطیالسی ، ص: 301، حدیث: 2282 والنھایہ فی الفتن والملاحم ، 377
ان دونوں امتوں یعنی یاجوج اور ماجوج کے بارے میں کچھ اسرائیلی روایات بھی بیان کی جاتی ہیں جو کہ صحیح نہیں ہیں۔ صحیح بات یہی ہے کہ یاجوج اور ماجوج بنی آدم ہی سے ہیں اور بنی آدم (انسانوں) ہی کی شکل و صورت کے ہیں جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«يَا آدَمُ فَيَقُولُ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ، قَالَ يَقُولُ: أَخْرِجْ بَعْثَ النَّارِ قَالَ: وَمَا بَعْثُ النَّارِ قَالَ: مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَمِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ»(صحیح البخاری بدء الخلق باب قصه ياجوج وماجوج ..حديث 3348 وصحيح مسلم الايمان باب قوله الله لادم اخرج بعث النار .. الخ حديث222)
’’ اللہ تعالیٰ(قیامت کے دن ) فرمائے گا اے آدم ! حضرت آدم علیہ السلام عرض کریں گے کہ لبیک وسعدیک ‘اے اللہ! اور ہر قسم کی بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا:’’(اپنی اولاد میں سے) جہنم کا حصہ نکالو۔‘‘ آدم علیہ السلام عرض کریں گے : اے اللہ ! جہنم کا حصہ کتنا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:’’ ایک ہزار میں ننانوے جہنم کے لیے ہیں۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ بات بہت گراں گزری تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ایک ہزار میں سے صرف ایک شخص جہنم رسید ہونے سے بچے گا؟ تو نبیﷺ نے فرمایا:
«لُوا وَأَبْشِرُوا، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنَّكُمْ لَمَعَ خَلِيقَتَيْنِ مَا كَانَتَا مَعَ شَيْءٍ إِلَّا كَثَّرَتَاهُ: يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ» (السنن الکبری للنسائی حدیث:11340)
’’عمل کرو او رتمہیں بشارت ہو قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے کہ یقینا تمہارا مقابلہ دو ایسی جماعتوں سے ہوگا کہ وہ جس کسی کے ساتھ ہوں گی دوسروں کے مقابلے میں اس کے تعداد بڑھادیں گے۔ یعنی یاجوج اور ماجوج۔
یہ حدیث اس بات کی واضح اور صریح دلیل ہے کہ یاجوج اور ماجوج کا تعلق بنو آدم سے ہے۔ ان کی شکلیں اور صورتیں اور ان کے تمام حالات انسانوں جیسے ہیں، لیکن یہ ایسی قومیں ہیں کہ ان کی سرشت میں زمین میں فتنہ و فساد برپا کرنا، لوگوں کی مصلحت کے کاموں کو خراب کرنا اور انسانوں کو قتل کرنا ہے تو لوگوں نے ذوالقرنین سے کہا:
﴿فَهَل نَجعَلُ لَكَ خَرجًا عَلىٰ أَن تَجعَلَ بَينَنا وَبَينَهُم سَدًّا ﴿٩٤﴾... سورةالكهف
’’اس شرط پر کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنادیں ۔‘‘
تو انہوں نے انہیں بتایا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انہیں ایسی بادشاہت اور دسترس عطا فرمائی ہے، جو اس مال سے بہتر ہے جو وہ اسے دینا چاہتے ہیں۔
﴿قالَ ما مَكَّنّى فيهِ رَبّى خَيرٌ فَأَعينونى بِقُوَّةٍ أَجعَل بَينَكُم وَبَينَهُم رَدمًا ﴿٩٥﴾... سورة الكهف
’’ اس نے جواب دیا کہ میرے اختیار میں میرے پروردگار نے جو دے رکھا ہے وہی بہتر ہے، تم صرف قوت طاقت سے میری مدد کرو ۔‘‘
پھر ذوالقرنین نے ان سے لوہے کے تختے طلب کیے، انہیں ایک دوسرے کے اوپر رکھوا دیا حتیٰ کہ وہ دونوں پہاڑوں تک پہنچ گئے۔
﴿ءاتونى زُبَرَ الحَديدِ ۖ حَتّىٰ إِذا ساوىٰ بَينَ الصَّدَفَينِ قالَ انفُخوا...﴿٩٦﴾... سورة الكهف
’’ میں تم میں اور ان میں مضبوط حجاب بنا دیتا ہوں۔ مجھے لوہے کی چادریں لا دو۔ یہاں تک کہ جب ان دونوں پہاڑوں کے درمیان دیوار برابر کر دی تو حکم دیا کہ آگ تیز جلاؤ تاوقتیکہ لوہے کی ان چادروں کو بالکل آگ کر دیا۔‘‘
یعنی جب لوہے کے ان تختوں پر آگ جلائی اور اسے دھونکا تو لوہے میں آگ بھڑک اٹھی تو پھر انہوں نے اس پر پگھلا ہوا تانبا ڈال دیا، جس کی وجہ سے لوہے کے یہ تختے آپس میں جڑ گئے اور اس طرح لوہے کی ایک مضبوط اور مستحکم دیوار بن گئی اور
﴿فَمَا اسطـٰعوا أَن يَظهَروهُ وَمَا استَطـٰعوا لَهُ نَقبًا ﴿٩٧﴾... سورة الكهف
’’ پس تو ان میں اس دیوار کے اوپر چڑھنے کی طاقت تھی اور نہ ان میں کوئی سوراخ کر سکتے تھے۔‘‘
اس طرح ان لوگوں اور یاجوج اور ماجوج کے درمیان یہ دیوار حائل ہوگئی۔ ذوالقرنین کا یہ قصہ مشہور و معروف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے سورۂ کہف کے آخر میں ذکر فرمایا ہے، جو شخص مزید تفصیل معلوم کرنا چاہے، وہ قابل اعتماد کتب تفسیر کو پڑھ لے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب