السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
﴿ رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ﴾اور آیت کریمہ﴿ذَلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیمْ﴾ کی کیا تفسیر ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پہلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات گرامی کے بارے میں یہ خبر دی ہے کہ وہ دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا رب ہے۔ اور ان سے موسم گرما اور سرما کے مشرق مراد ہیں، موسم گرما کے مشرق میں سورج شمال کی طرف اپنے مدار کے انتہائی آخری کنارے میں ہوتا ہے اور موسم سرما میں سورج جنوب کی طرف اپنے مدار کے انتہائی آخری کنارے میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی بات کو بیان فرمایا ہے اور ان دونوں کے اختلاف میں مخلوق کے لیے عظیم مصلحتیں ہیں۔ ان دونوں کے اختلاف میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے تمام قدرت اور کمال رحمت و حکمت کی بھی ایک واضح دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی اس بات کی قدرت نہیں رکھتا کہ وہ سورج کو ایک مشرق سے دوسرے مشرق اور ایک مغرب سے دوسرے مغرب کی طرف پھیر سکے، اسی لیے تو اس نے یہ ارشاد فرمایا ہے:
﴿رَبُّ المَشرِقَينِ وَرَبُّ المَغرِبَينِ ﴿١٧﴾ فَبِأَىِّ ءالاءِ رَبِّكُما تُكَذِّبانِ ﴿١٨﴾... سورة الرحمٰن
’’ وه رب ہے دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا (17) تو (اے جنو اورانسانو!) تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ ۔‘‘
﴿ رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ﴾ کے بعد ﴿فَبِاَیِّ اٰلائِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ﴾ کی آیت کو ذکر کرکے اس طرف اشارہ فرمایا کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر عظیم الشان نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے۔ تو معلوم ہوا کہ دو مشرقوں اور دو مغربوں سے موسم سرما و گرما کے سورج کے دو مشرق اور دو مغرب مراد ہیں۔ ایک دوسری آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَلا أُقسِمُ بِرَبِّ المَشـٰرِقِ وَالمَغـٰرِبِ إِنّا لَقـٰدِرونَ ﴿٤٠﴾... سورة المعارج
’’ پس مجھے قسم ہے مشرقوں اور مغربوں کے رب کی (کہ) ہم یقیناً قادر ہیں ۔‘‘
اس میں مشرق و مغرب کے جمع کے صیغے استعمال کیے گئے ہیں، جب کہ ایک تیسری آیت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿رَبُّ المَشرِقِ وَالمَغرِبِ لا إِلـٰهَ إِلّا هُوَ فَاتَّخِذهُ وَكيلًا ﴿٩﴾... سورةالمزمل
ان آیات کریمہ میں کوئی تضاد نہیں ہے کہ جس آیت میں تثنیہ کے صیغے استعمال ہوئے ہیں، اس سے جو مراد ہے وہ ہم قبل ازیں بیان کر آئے ہیں اور جس آیت میں مشرق و مغرب کی جمع مشارق و مغارب کے صیغے استعمال ہوئے ہیں تو اس سے یا تو ہر روز کا مشرق و مغرب مراد ہے کیونکہ آج کا مشرق و مغرب کل کے مشرق و مغرب سے مختلف ہوتا ہے یا اس سے نجوم و کواکب اور شمس و قمر کے مشارق و مغارب مراد ہیں۔
جس آیت میں واحد کا صیغہ مشرق و مغرب استعمال ہوا ہے، اس سے مراد جہت ہے۔ یعنی وہی ہر چیز کا مالک اور ہر چیز کا رب ہے خواہ وہ چیز مشرق میں ہو یا مغرب میں۔ یاد رہے کہ کتاب اللہ اور صحیح سنت رسول اللہﷺ میں کوئی تضاد نہیں ہوتا، نہ نصوص میں اور نہ امر واقع کے اعتبار سے۔ اگر کسی کو یہ وہم ہو کہ کتاب و سنت میں تناقض و تعارض ہے تو یہ یا تو اس کے اپنے علم کی کمی ہوگی یا فہم میں نقص اور غور و فکر میں کوتاہی کی وجہ سے ہوگا، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ نصوص کتاب و سنت میں اور امر واقع میں کوئی تضاد یا اختلاف نہیں ہے۔ سوال کا دوسرا حصہ آیت کریمہ:
﴿وَالشَّمسُ تَجرى لِمُستَقَرٍّ لَها... ﴿٣٨﴾... سورة يٰس
’’ اور سورج کے لئے جو مقرره راه ہے وه اسی پر چلتا رہتا ہے۔‘‘
کے بارے میں ہے، تو اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ یہ عظیم سورج جسے اللہ تعالیٰ نے روشن چراغ بنایا ہے، جو حرارت اور روشنی کے اعتبار سے ایک بہت بڑا منبع ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے، جس کے حدود کا اللہ تعالیٰ نے اپنے علم سے تعین کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد فرمایا:
﴿ ذٰلِكَ تَقديرُ العَزيزِ العَليمِ ﴿٣٨﴾... سورة يٰس
’’ یہ ہے مقرر کرده غالب، باعلم اللہ تعالیٰ کا ۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہی نے اس عظیم الشان سورج کو پیدا فرمایا اور اس نے اسے مسخر کیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے امر اور اس کے علم و حکمت کے تقاضے کے مطابق چلتا ہے اور اس طرح چلتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے۔ مُسْتَقَر سے مراد عرش الٰہی کے سایہ تلے اس کا ٹھکانا ہے، جہاں یہ ہر روز غروب ہونے کے بعد جاتا اور اللہ ذوالجلال کے عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کرتا ہے۔ اجازت نہ ملے تو یہ وہاں لوٹ جائے جہاں سے آیا تھا اور پھر یہ مغرب سے طلوع ہو، اس طرف اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت کریمہ میں اشارہ فرمایا ہے:
﴿يَومَ يَأتى بَعضُ ءايـٰتِ رَبِّكَ لا يَنفَعُ نَفسًا إيمـٰنُها لَم تَكُن ءامَنَت مِن قَبلُ أَو كَسَبَت فى إيمـٰنِها خَيرًا... ﴿١٥٨﴾... سورة الانعام
’’آپ کے رب کی کوئی (بڑی) نشانی آئے؟ جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی، کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہ آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا۔ یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو۔‘‘
لوگ جب سورج کو مغرب سے طلوع ہوتا دیکھیں گے تو سب کے سب ایمان لے آئیں گے مگر جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا یا جس نے اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کیے ہوں گے۔ اس طرح سورج اپنے ایک اور ٹھکانے کی طرف بھی چلے گا اور روز قیامت یہ اس کا آخری ٹھکانا ہوگا۔ اس کی طرف حسب ذیل آیت میں اشارہ ہے:
﴿إِذَا الشَّمسُ كُوِّرَت ﴿١﴾... سورة التكوير
’’ جب سورج لپیٹ لیا جائے گا۔‘‘
یہ آیت اس بات کی بھی واضح دلیل ہے کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے، قرآن مجید سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے لہٰذا ہمارا عقیدہ اور دین یہی ہے حتیٰ کہ کوئی ایسی ظاہر اور محسوس دلیل ہو جس کی وجہ سے ہم اس آیت کے بظاہر مفہوم کی تاویل کریں اور وہ بات کہیں جو آج کل کہی جاتی ہے کہ رات اور دن کے آنے جانے اور سورج کے طلوع و غروب ہونے کا سبب یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے مگر کسی کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ کسی ایسی دلیل کے بغیر ظاہر کتاب و سنت سے اعراض کرے، جو روز قیامت اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کے لیے حجت بن سکتی ہو اور اگر ایسی کوئی دلیل ہو تو پھر ظاہر کتاب و سنت سے اعراض کرکے اس دلیل کے مطابق موقف اختیار کرنا درست ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن جب تک کوئی ایسی محسوس دلیل نہ ہو جس سے دلوں کو اطمینان ہو تو اس وقت ہم مومنوں پر یہی واجب ہے کہ ہم ظاہر کتاب و سنت کے مطابق ایمان لائیں اور ان کی مخالفت کرنے والے کے قول کو قطعاً شائستہ التفات قرار نہ دیں خواہ وہ کوئی بھی ہو۔
میرے سامنے اب تک ان لوگوں کا یہ موقف صحیح ثابت نہیں ہوسکا کہ لیل ونہار کی گردش اور سورج کے طلوع و غروب کا سبب، زمین کی سورج کے گرد گردش ہے۔ میرا عقیدہ جس کے مطابق میں اللہ تعالیٰ کے دین کو اختیار کیے ہوئے ہوں، یہ ہے کہ سورج کے سبب رات اور دن ایک دوسرے کے پیچھے آتے جاتے ہیں اور اس کی وجہ سورج کا زمین کے گرد گردش کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس سلسلہ میں ملاحظہ فرمائیں، ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿وَتَرَى الشَّمسَ إِذا طَلَعَت تَزٰوَرُ عَن كَهفِهِم ذاتَ اليَمينِ وَإِذا غَرَبَت تَقرِضُهُم ذاتَ الشِّمالِ وَهُم فى فَجوَةٍ مِنهُ...﴿١٧﴾... سورة الكهف
’’ آپ دیکھیں گے کہ آفتاب بوقت طلوع ان کے غار سے دائیں جانب کو جھک جاتا ہے اور بوقت غروب ان کے بائیں جانب کترا جاتا ہے اور وه اس غار کی کشاده جگہ میں ہیں۔‘‘
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَقالَ إِنّى أَحبَبتُ حُبَّ الخَيرِ عَن ذِكرِ رَبّى حَتّىٰ تَوارَت بِالحِجابِ ﴿٣٢﴾... سورة ص
’’ تو کہنے لگے میں نے اپنے پروردگار کی یاد پر ان گھوڑوں کی محبت کو ترجیح دی، یہاں تک کہ (آفتاب) چھﭗ گیا ۔‘‘
مزید فرمان الٰہی ہے:
﴿حَتّىٰ إِذا بَلَغَ مَغرِبَ الشَّمسِ...﴿٨٦﴾... سورة الكهف
ان متعدد آیات میں طلوع و غروب کی، سمٹ جانے کی، مغرب کی اور چھپ جانے کی اضافت سورج کی طرف ہے لہٰذا ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ان افعال کو جن کی اضافت سورج کی طرف کی گئی ہے، ہم انہیں ان کے ظاہر سے بدل کر ایک ایسے قول کو اختیار کرلیں جس کے بارے میں یہ واضح نہیں کہ وہ امر واقع کے طور پر اس طرح ثابت ہے، لہٰذا ایسا کرنا ہرگز ہرگز جائز نہیں ہوگا۔
ہم پر یہ واجب ہے کہ ہم ظاہر کتاب و سنت کے مطابق عقیدہ رکھیں الا یہ کہ کوئی ایسی محسوس دلیل موجود ہو جس کے ساتھ انسان روز قیامت کو اپنے رب کا سامنا کرسکے اور کہہ سکے کہ اے اللہ! میں نے ایک ایسے امر محسوس کو دیکھا تھا جو بظاہر اس کے خلاف تھا جس کے ساتھ تو نے ہمیں مخاطب فرمایا، تو ہی زیادہ علم و حکمت والا ہے، تیری کتاب اس سے پاک ہے کہ وہ واقع اور محسوس کے خلاف ہو۔ اگر حس واضح سے یہ ثابت ہو جائے کہ رات دن کا آنا جانا زمین کی گردش کی وجہ سے ہے تو پھر میرا فہم غلط ہوگا اور اگر یہ موقف محض قیل و قال پر مبنی ہے تو پھر میرا عقیدہ یہ ہے کہ اس طرح کے امور میں کسی کے لیے کتاب و سنت کے ظاہر کی مخالفت کرنا جائز نہیں ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ﴿ وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَھَا ﴾ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ سورج اللہ تعالیٰ کے حکم سے چلتا ہے، اپنے ٹھکانے کی طرف جہاں یہ روزانہ پہنچ جاتا ہے۔ ایک خاص مقصد سے جاتا ہے اور وہ مقصد اللہ تعالیٰ کے عرض کے نیچے اس کا اپنے رب تعالیٰ کو سجدہ کرنا ہے، جیسا کہ حضرت ابو ذر سے مروی نبیﷺ کی اس حدیث سے ثابت ہے جسے امام بخاری اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے۔ (۱)
(۱) صحیح البخاري، بد الخلق، باب صفة الشمس والقمر، حدیث:3199 وصحیح مسلم، الایمان، باب بیان الزمن الذي لا یقبل فیه الایمان، حدیث:159
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب