السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرا پہلا استفسار تو کتاب اللہ میں وارد بسم اللہ کے اسرار و آثار کے بارے میں ہے اور دوسرا استفسار یہ ہے کہ آیت کریمہ ﴿وَقولوا حِطَّةٌ نَغفِر لَكُم خَطـٰيـٰكُم﴾ میں لفظ حِطَّةٌکے کیا معنی ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ ہر اہم کام کے وقت اس کا ذکر کیا جائے تاکہ اس کے نام سے برکت حاصل کی جائے، خیر کو حاصل کیا جائے اور شر کو دور کیا جائے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اقرَأ بِاسمِ رَبِّكَ الَّذى خَلَقَ ﴿١﴾... سورة العلق
’’ پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔‘‘
﴿وَاذكُرِ اسمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّل إِلَيهِ تَبتيلًا ﴿٨﴾... سورة المزمل
’’ تو اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کر اور تمام خلائق سے کٹ کر اس کی طرف متوجہ ہوجا۔‘‘
حکم شریعت ہے کہ کھاتے، پیتے، مباشرت کرتے، گھر میں داخل ہوتے، سوتے، سواری پر سوار ہوتے اور اترتے، لکھتے پڑھتے، اور اس طرح کے ہر اہم کام کے آغاز میں اللہ کا نام لیا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نام سے خیر و بھلائی حاصل ہوتی ہے، کراہت و ہلاکت دور ہوتی ہے، رزق، فتح و نصرت اور مطلوب کے حاصل کرنے میں کامیابی ہوتی ہے۔ تھوڑی چیز پر اللہ کا نام لیا جائے تو وہ زیادہ ہو جاتی ہے۔ ڈر اور خوف کے وقت اللہ کا نام لیا جائے تو وہ دور ہو جاتا ہے لیکن ضروری ہے کہ اللہ کا نام لینے والا اخلاص اور یقین کے ساتھ یہ کہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے نام سے مدد حاصل کرتا، رحم طلب کرتا اور اپنے کاموں کو شروع کرتا ہوں… الخ۔
آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو حکم دیا تھا کہ بیت المقدس میں داخل ہوتے وقت حِطَّةٌپڑھنا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اے اللہ! ہماری خطاؤں سے درگزر کرنا اور ہمارے گناہوں کو معاف فرما دینا۔ مگر انہوں نے اس کلمہ کو بدل کر حِنْطَة کہنا شروع کردیا، جس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں گندم عطا فرما۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب