سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

دوران حيض ذكر واذكار

  • 12591
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 861

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

كيا حيض كے دوران آيت كريمہ كا ورد كيا جا سكتا ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دوران حيض تلاوت قرآن كے حوالے سے اہل علم كے ہاں اختلاف پايا جاتا ہے،ليكن اكثر اہل علم حائضہ عورت كے ليے قرآن مجيد كى تلاوت جائز قرار ديتے ہيں، امام مالك كا مسلك يہى ہے، اور امام احمد سے بھى ايك روايت ہے جسے شيخ الاسلام ابن تيميہ نے اختيار كيا اور امام شوكانى نے راجح قرار ديا ہے، انہوں نے كئى ايك امور سےاستدلال كيا ہے:

1 - اصل میں اس كا جواز اور حلت ہى ہے حتى كہ اس كى ممانعت میں كوئى دلیل مل جائے، ليكن ايسى كوئى دليل نہيں ملتى جو حائضہ عورت كو قرآن كى تلاوت سے منع كرتى ہو.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

حائضہ عورت كى تلاوت كى ممانعت ميں كوئى صريح اور صحيح نص نہيں ملتى.

اور ان كا كہنا ہے: يہ تو معلوم ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں بھى عورتوں كو حيض آتا تھا، ليكن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں قرآن كى تلاوت سے منع نہيں كيا، جس طرح كہ انہيں ذكر و اذكار اور دعاء سے منع نہيں فرمايا.

2 - اللہ سبحانہ وتعالى نے قرآن مجيد كى تلاوت كا حكم ديا اور قرآن مجيد كى تلاوت كرنے والے كى تعريف كى اور اسے عظيم اجروثواب دينے كا وعدہ فرمايا ہے، چنانچہ اس سے منع اسى وقت كيا جا سكتا ہے جب كوئى دليل مل جائے، ليكن كوئى دليل ايسى نہيں جو حائضہ عورت كو قرآن مجيد كى تلاوت سے منع كرتى ہو، جيسا كہ بيان بھى ہو چكا ہے.

3 - قرآن مجيد كى تلاوت منع كرنے ميں حائضہ عورت كا جنبى پر قياس كرنا صحيح نہيں بلكہ يہ قياس مع الفارق ہے، كيونكہ جنبى شخص كے اختيار ميں ہے كہ وہ اس مانع كو غسل كر كے زائل كر لے، ليكن حائضہ عورت ايسا نہيں كر سكتى، اور اسى طرح غالبا حيض كى مدت بھى لمبى ہوتى ہے، ليكن جنبى شخص كو نماز كا وقت ہونے پر غسل كرنے كا حكم ہے.

4 - حائضہ عورت كو قرآن مجيد كى تلاوت سے منع كرنے ميں اس كے ليے اجروثواب سے محرومى ہے، اور ہو سكتا ہے اس كى بنا پر وہ قرآن مجيد ميں سے كچھ بھول جائے، يا پھر اسے تعليم كے دوران قرآن مجيد پڑھنے كى ضرورت ہو.

مندرجہ بالا سطور سے حائضہ عورت كے ليے قرآن مجيد كى تلاوت كے جواز كے قائلين كے دلائل كى قوت ظاہر ہوتى ہے، اور اگر عورت احتياط كرتے ہوئے قرآن مجيد كى تلاوت صرف اس وقت كرے جب اسے بھول جانے كا خدشہ ہو تو اس نے محتاط عمل كيا ہے.

يہاں ايك تنبيہ كرنا ضرورى ہے كہ جو كچھ اوپر كى سطور ميں بيان ہوا ہے وہ حائضہ عورت كے ليے زبانى قرآن مجيد كى تلاوت كے متعلق ہے.

ليكن قرآن مجيد ديكھ كر تلاوت كرنے كا حكم اور ہے، اس ميں اہل علم كا راجح قول يہ ہے كہ قرآن مجيد سے تلاوت كرنا حرام ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اسے پاكبازوں كے علاوہ اور كوئى نہيں چھوتا ﴾.

اور اس خط ميں بھى ذكر ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عمرو بن حزم كو دے كر يمن كى طرف بھيجا تھا اس ميں ہے:

" پاك شخص كے علاوہ قرآن مجيد كو كوئى اور نہ چھوئے "

موطا امام مالك ( 1 / 199 ) سنن نسائى ( 8 / 57 ) ابن حبان حديث نمبر ( 793 ) سنن بيھقى ( 1 / 87 ). اس ليے اگر حائضہ عورت قرآن مجيد ديكھ كر پڑھنا چاہے تو وہ اسے كسى منفصل چيز كے ساتھ پكڑے مثلا كسى پاك صاف كپڑے يا دستانے كے ساتھ، يا قرآن كے اوراق كسى لكڑى اور قلم وغيرہ كے ساتھ الٹائے، قرآن كى جلد كو چھونے كا حكم بھى قرآن جيسا ہى هے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتوی کمیٹی

محدث فتوی


ماخذ:مستند کتب فتاویٰ