السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
علم نجوم کے بارے میں علماء کرام کا کیا فتوی ہے؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!علم نجوم کی دو اقسام ہیں: 1۔ ایک علم نجوم وہ ہے جس کے ذریعے اوقات دن،ہفتے،مہینے اور سال معلوم کئےجاتے ہیں،اور راستوں کی راہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔یہ جائز اور مطلوب ہے ،کیونکہ متعدد شرعی امور ان اوقات کے ساتھ مخصوص ہیں۔ 2۔دوسرا علم نجوم وہ ہے جس کے ذریعے نجومی حضرات غیب کی خبریں بتاتے ہیں اورمستقبل کی پیشین گوئیاں کرتے ہیں۔یہ ممنوع اور حرام ہے اور شرعی تعلیمات کے خلاف ہے۔کیونکہ غیب کا علم صرف اور صرف اللہ رب العزت کے پاس ہے۔ان کی یہ پیشین گوئیاں سراسر جھوٹ اور دھوکہ ہے۔ارشاد باری تعالی ہے۔ ﴿قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّـهُ...﴿٦٥﴾... سورةالبقرة
کہہ دیجئے! آسمانوں وزمین میں سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا ہے۔ سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا: «مَنْ اقْتَبَسَ عِلْمًا مِنَ النُّجُومِ، اقْتَبَسَ شُعْبَةً مِنَ السِّحْرِ زَادَ مَا زَادَ»جس نے علم نجوم حاصل کیا ، اس نے جادو کا ایک حصہ حاصل کر لیا ،اور جو جتنا زیادہ حاصل کرے گا وہ اتنا ہی جادو زیادہ حاصل کر رہا ہوگا۔ مذکورہ بالا دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ علم نجوم کی ایک قسم شرعا مطلوب ومقصود ،جبکہ دوسری قسم ممنوع اور حرام ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتوی کمیٹیمحدث فتوی |