السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا اصول حدیث کو فالو کرنا تقلید ہے؟ جبکہ یہ اصول نہ قرآن میں ملتے ہیں نہ حدیث میں۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!اللہ تعالی نے کسی بھی خبر یا روایت کو تسلیم کرنے سے پہلے پہلے اس کی تحقیق کرنے کا حکم دیا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے۔ ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن جاءَكُم فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنوا أَن تُصيبوا قَومًا بِجَهـٰلَةٍ فَتُصبِحوا عَلىٰ ما فَعَلتُم نـٰدِمينَ ﴿٦﴾... سورة الحجرات
اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے ،تو اس کی تحقیق کر لیا کرو ،کہیں ایسا نہ ہو کہ جہالت میں تم ایسا کام کر بیٹھو جس پر تمہیں ندامت ہو۔ اور نبی کریم نے فرمایا: " كفى بالمرء كذبا أن يحدّث بكل ما سـمع " رواه مسلم ، المقدمة 6کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ(بلا تحقیق)ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کر دے۔ مذکورہ بالا آیت مبارکہ اور حدیث نبویہ میں ہمیں ہر خبر کی تحقیق کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔اور محدثین نے جو اصول وضع کئے ہیں وہ اسی حکم کی تکمیل میں کئے ہیں۔انہوں نے کسی بھی خبر کی تحقیق کے لئے جو بھی امکانی اصول ہو سکتے تھے وہ بیان کر دئیے ہیں اور ان کا ایک منہج طے کر دیا ہے۔آج بھی اگر کوئی شخص کسی روایت کی تحقیق کرنا چاہتا ہے تو اسے ان اصولوں کو فالو کرنا ضروری ہے۔ہاں البتہ اگر کوئی عالم دین علم حدیث کے کسی ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کی شخصیت اس میدان میں مصدر مانی جاتی ہو تو وہ محدثین کے منہج میں رہتے ہوئے ان اصولوں پر جرح بھی کر سکتا ہے اور ان کی اصلاح بھی کر سکتا ہے ،جیسا کہ بعض امور میں شیخ البانی اور مولانا زبیر علی زئی نے کیا ہے۔ لیکن محدثین کے منہج کو چھوڑ کر مغربی طرز تحقیق کو اپنانا اور نئے نئے اصول گھڑنا سراسر گمراہی اور ضلالت ہے،جیساکہ مودودی،سلیمان ندوی ،اور غامدی وغیرہ نے کیا ہے۔جس کی بناء پر ان لوگوں نے متعدد صحیح احادیث کا رد کر دیا ہے اور انکار حدیث کا ایک باب کھول دیا ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتوی کمیٹیمحدث فتوی |