السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ کی کیا تفسیر ہے؟
﴿وَلا تَشتَروا بِـٔايـٰتى ثَمَنًا قَليلًا وَإِيّـٰىَ فَاتَّقونِ ﴿٤١﴾... سورة البقرة
’’ اور میری آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر نہ فروخت کرو اور صرف مجھ ہی سے ڈرو ۔‘‘
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس آیت کریمہ کے معنی یہ ہیں کہ بعض لوگ، جن کو اللہ تعالیٰ نے آیات کا علم دیا ہوتا ہے، وہ ان کے بدلے تھوڑی سی قیمت حاصل کرلیتے ہیں۔ یعنی دنیا کی خاطر اللہ کے دین کو چھوڑ دیتے ہیں یا دنیا کی خاطر اپنے جاہ و منصب کو تو باقی رکھنا چاہتے ہیں مگر اللہ کے دین کو ترک کردیتے ہیں مثلاً ایک عالم کو یہ تو علم ہوتا ہے کہ یہ چیز حرام ہے مگر وہ اسے حرام نہیں کہتا کیونکہ وہ ڈرتا ہے کہ لوگ اس سے دور ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ یہ تشدد سے کام لیتا ہے۔ یا وہ ڈرتا ہے کہ حرام کا فتویٰ دینے سے بادشاہ اس کی تنخواہ کم کردے گا، یا اسے اس کے منصب سے معزول کردے گا، لہٰذا اس خطرہ کی وجہ سے وہ حرام کو بھی حلال قرار دینے لگ جاتا ہے۔ تاکہ عوام میں اپنی مقبولیت کو برقرار رکھ سکے یا بادشاہ کے عطا کردہ منصب پر فائز رہ سکے۔ بہرحال اس آیت کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ کچھ لوگ امور دنیا کی خاطر اللہ کے دین کو چھوڑ دیتے ہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب