السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سورۂ یٰسٓ کی آیت ۲۰ میں ہے:
﴿وَجاءَ مِن أَقصَا المَدينَةِ رَجُلٌ يَسعىٰ قالَ يـٰقَومِ اتَّبِعُوا المُرسَلينَ ﴿٢٠﴾... سورةيس
’’ اور ایک شخص (اس) شہر کے آخری حصے سے دوڑتا ہوا آیا کہنے لگا کہ اے میری قوم! ان رسولوں کی راه پر چلو۔‘‘
اسی طرح سورۃ القصص کی آیت ۲۰ میں ہے:
﴿وَجاءَ رَجُلٌ مِن أَقصَا المَدينَةِ يَسعىٰ قالَ يـٰموسىٰ إِنَّ المَلَأَ يَأتَمِرونَ بِكَ لِيَقتُلوكَ فَاخرُج إِنّى لَكَ مِنَ النّـٰصِحينَ ﴿٢٠﴾... سورةالقصص
’’ شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا اے موسیٰ! یہاں کے سردار تیرے قتل کا مشوره کر رہے ہیں، پس تو بہت جلد چلا جا مجھے اپنا خیر خواه مان ۔‘‘
سوال یہ ہے کہ یہ دو آدمی کون ہیں اور ان دو آیتوں کی تفسیر کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال کے جواب سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ جب قرآن و سنت میں کسی شخص کا تذکرہ مبہم آیا ہو تو واجب ہے کہ اسے مبہم ہی رکھا جائے اور اس کی تعیین کے لیے تکلف نہ کیا جائے کیونکہ اصل اہمیت تو اس قصہ کی ہے، جسے بیان کیا جا رہا ہوتا ہے اور فلاں یا فلاں شخص کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ اہمیت امر واقع کی ہوتی ہے۔ ان دو آیتوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں یہ نہیں فرمایا کہ وہ کون تھا۔ سورۃ القصص میں ارشاد ہے:
﴿وَجاءَ رَجُلٌ مِن أَقصَا المَدينَةِ يَسعىٰ ...﴿٢٠﴾... سورة القصص
’’ شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا۔‘‘
اور سورۂ یٰسٓ میں فرمایا:
﴿وَجاءَ مِن أَقصَا المَدينَةِ رَجُلٌ يَسعىٰ ... ﴿٢٠﴾... سورةيس
’’ اور ایک شخص (اس) شہر کے آخری حصے سے دوڑتا ہوا آیا ۔‘‘
یعنی سورۃ القصص میں شخص کا ذکر مقدم ہے اور سورۂ یٰسٓ میں مؤخر ، مگر یہ نہیں بتایا کہ وہ ہے کون، لہٰذا اس کی تعیین میں کوئی فائدہ نہیں لہٰذا اس طرح کے اشخاص کی تعیین میں مشغول نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس طرح کی آیات و احادیث کو مبہم ہی رہنے دینا چاہیے اور مخاطب کو توجہ ان احکام و مواعظ کی جانب مبذول کرنا چاہیے جو اس قصے سے مقصود ہوں۔
ان دونوں آیتوں کی تفسیر یہ ہے کہ سورۃ القصص میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ایک ہمدرد و خیر خواہ شخص کو بھیج دیا جس نے موسیٰ علیہ السلام کو بتایا کہ شہر کے اشراف و اکابر یعنی رئیس یہ مشورہ کر رہے ہیں کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا سلوک کریں کیونکہ موسیٰ علیہ السلام نے ایک قبطی کو قتل کردیا تھا اس طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے لیے آسانی پیدا کردی کہ انہیں حقیقت حال کا علم ہوگیا اور اس شخص نے راہنمائی کرتے ہوئے کہا:
﴿فَاخرُج إِنّى لَكَ مِنَ النّـٰصِحينَ ﴿٢٠﴾... سورةالقصص
’’سو تم یہاں سے نکل جاؤ میں تمہارا خیرا خواہ ہوں۔‘‘
موسیٰ علیہ السلام وہاں سے ڈرتے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے اور پھر اللہ تعالیٰ نے آگے سارا قصہ بیان فرمایا ہے۔ اور سورۂ یٰسٓ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس نے ایک بستی والوں کی طرف دو رسول بھیجے، مگر انہوں نے ان کی تکذیب کی اور ان کی رسالت کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تائید و حمایت کے لیے ایک تیسرے رسول کو بھیج دیا، مگر بستی والے بدستور رسولوں کا انکار کرتے رہے اور اس طرح رسولوں اور اس بستی والوں کے مابین ہوا جو ہوا، تو اس اثنا میں ایک شخص شہر کی پرلی طرف سے ڈورتا ہوا آیا۔ اس معاملے کی اہمیت کے پیش نظر یہاں پرلی جانب کا پہلے ذکر کیا ہے اور اس نے آکر اپنی قوم سے کہا:
﴿وَجاءَ مِن أَقصَا المَدينَةِ رَجُلٌ يَسعىٰ قالَ يـٰقَومِ اتَّبِعُوا المُرسَلينَ ﴿٢٠﴾ اتَّبِعوا مَن لا يَسـَٔلُكُم أَجرًا وَهُم مُهتَدونَ ﴿٢١﴾ وَما لِىَ لا أَعبُدُ الَّذى فَطَرَنى وَإِلَيهِ تُرجَعونَ ﴿٢٢﴾... سورة يس
’’ ان رسولوں کی راه پر چلو(20) ایسے لوگوں کی راه پر چلو جو تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتے اور وه راه راست پر ہیں (21) اور مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔‘‘
اور پھر اللہ تعالیٰ نے آگے سارا قصہ بیان فرمایا ہے۔ یہ شخص اپنی قوم کا ہمدرد اور خیر خواہ تھا اور اسے اس کا صلہ یہ ملا کہ اس سے کہا گیا:
﴿قيلَ ادخُلِ الجَنَّةَ ۖ قالَ يـٰلَيتَ قَومى يَعلَمونَ ﴿٢٦﴾ بِما غَفَرَ لى رَبّى وَجَعَلَنى مِنَ المُكرَمينَ ﴿٢٧﴾... سورةيس
’’ اس سے کہا گیا کہ جنت میں چلا جا، کہنے لگا کاش! میری قوم کو بھی علم ہو جاتا (26) کہ مجھے میرے رب نے بخش دیا اور مجھے باعزت لوگوں میں سے کر دیا ۔‘‘
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب