السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جماعت اسلامی ہند آیت کریمہ ﴿ن أَقيمُوا الدّينَ وَلا تَتَفَرَّقوا فيهِ...﴿١٣﴾... سورة شورى ’’ دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔‘‘ کی تفسیر یہ کرتی ہے کہ عبادت تو اللہ تعالیٰ کی کرو لیکن ان امور و معاملات میں جو حکام و محکومین سے متعلق ہیں، معاشرہ کو اس طرح استوار کرنے میں کسی کا دخل نہیں، جن کی اسلام دعوت دیتا ہے۔ البتہ مولانا مودودی نے عبادت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ لفظ کئی معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے، جب کہ دین اور اطاعت کا لفظ ان سب اشیاء پر مشتمل ہے لیکن یہ جماعت اس پر یہ اعتراض بھی کرتی ہے کہ اگر ہم اطاعت کے معنی عبادت کے کریں تو ﴿وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ﴾ کے معنی یہ ہوں گے کہ رسول کی عبادت کرو حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے تو اس سلسلہ میں صحیح رائے کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس جماعت کی یہ تفسیر بلا شک ایک غلط تفسیر ہے کیونکہ عبادت کے معنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے حکم کو مانتے ہوئے اس کے سامنے عجز و نیاز مندی کے اظہار کے ہیں، خواہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا تعلق اللہ تعالیٰ کے معاملہ سے ہو یا اس کی مخلوق کے معاملہ سے۔ اس بات کی دلیل کہ مخلوق سے معاملہ بھی اللہ تعالیٰ کے دین میں داخل ہے، یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں سے معاملہ کے مسئلے کو قرآن مجید کی سب سے طویل آیت یعنی آیت دَیْن میں ذکر کیا ہے، جو حسب ذیل ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا تَدايَنتُم بِدَينٍ إِلىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكتُبوهُ ۚ وَليَكتُب بَينَكُم كاتِبٌ بِالعَدلِ ۚ وَلا يَأبَ كاتِبٌ أَن يَكتُبَ كَما عَلَّمَهُ اللَّـهُ ۚ فَليَكتُب وَليُملِلِ الَّذى عَلَيهِ الحَقُّ وَليَتَّقِ اللَّـهَ رَبَّهُ وَلا يَبخَس مِنهُ شَيـًٔا ۚ فَإِن كانَ الَّذى عَلَيهِ الحَقُّ سَفيهًا أَو ضَعيفًا أَو لا يَستَطيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَليُملِل وَلِيُّهُ بِالعَدلِ ۚ وَاستَشهِدوا شَهيدَينِ مِن رِجالِكُم ۖ فَإِن لَم يَكونا رَجُلَينِ فَرَجُلٌ وَامرَأَتانِ مِمَّن تَرضَونَ مِنَ الشُّهَداءِ أَن تَضِلَّ إِحدىٰهُما فَتُذَكِّرَ إِحدىٰهُمَا الأُخرىٰ ۚ وَلا يَأبَ الشُّهَداءُ إِذا ما دُعوا ۚ وَلا تَسـَٔموا أَن تَكتُبوهُ صَغيرًا أَو كَبيرًا إِلىٰ أَجَلِهِ ۚ ذٰلِكُم أَقسَطُ عِندَ اللَّـهِ وَأَقوَمُ لِلشَّهـٰدَةِ وَأَدنىٰ أَلّا تَرتابوا ۖ إِلّا أَن تَكونَ تِجـٰرَةً حاضِرَةً تُديرونَها بَينَكُم فَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ أَلّا تَكتُبوها ۗ وَأَشهِدوا إِذا تَبايَعتُم ۚ وَلا يُضارَّ كاتِبٌ وَلا شَهيدٌ ۚ وَإِن تَفعَلوا فَإِنَّهُ فُسوقٌ بِكُم ۗ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّـهُ ۗ وَاللَّـهُ بِكُلِّ شَىءٍ عَليمٌ ﴿٢٨٢﴾وَإِن كُنتُم عَلىٰ سَفَرٍ وَلَم تَجِدوا كاتِبًا فَرِهـٰنٌ مَقبوضَةٌ ۖ فَإِن أَمِنَ بَعضُكُم بَعضًا فَليُؤَدِّ الَّذِى اؤتُمِنَ أَمـٰنَتَهُ وَليَتَّقِ اللَّـهَ رَبَّهُ ۗ وَلا تَكتُمُوا الشَّهـٰدَةَ ۚ وَمَن يَكتُمها فَإِنَّهُ ءاثِمٌ قَلبُهُ ۗ وَاللَّـهُ بِما تَعمَلونَ عَليمٌ ﴿٢٨٣﴾... سورة البقرة
’’ اے ایمان والو! جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرر پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور لکھنے والے کو چاہئے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے، کاتب کو چاہئے کہ لکھنے سے انکار نہ کرے جیسے اللہ تعالیٰ نے اسے سکھایا ہے، پس اسے بھی لکھ دینا چاہئے اور جس کے ذمہ حق ہو وہ لکھوائے اور اپنے اللہ تعالیٰ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور حق میں سے کچھ گھٹائے نہیں، ہاں جس شخص کے ذمہ حق ہے وہ اگر نادان ہو یا کمزور ہو یا لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی عدل کے ساتھ لکھوا دے اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گوہوں میں سے پسند کر لو تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے اور گواہوں کو چاہئے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی نہ کرو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی درست رکھنے والی اور شق و شبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ معاملہ نقد تجارت کی شکل میں ہو جو آپس میں تم لین دین کر رہے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے میں کوئی گناہ نہیں۔ خرید و فروخت کے وقت بھی گواہ مقرر کر لیا کرو اور ﴿یاد رکھو کہ﴾ نہ تو لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو اور اگر تم یہ کرو تو یہ تمہاری کھلی نافرمانی ہے، اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا-اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو، ہاں اگر آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہو تو جسے امانت دی گئی ہے وه اسے ادا کردے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے۔ اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو اسے چھپالے وه گنہگار دل والا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔‘‘
وہ انسان جو عبادات میں تو اللہ تعالیٰ کی شریعت کے حکم کو مانتا ہے مگر معاملات میں اسے تسلیم نہیں کرتا تو وہ در حقیقت ساری شریعت ہی کا منکر ہے، کیونکہ مکمل شریعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ اگر وہ شریعت کے کچھ حصے کو مانتا اور کچھ کا انکار کرتا ہے، تو وہ ساری شریعت کا منکر و کافر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے اسی طرز عمل کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا ہے:
﴿أَفَتُؤمِنونَ بِبَعضِ الكِتـٰبِ وَتَكفُرونَ بِبَعضٍ...٨٥﴾... سورة البقرة
’’ (یہ )کیا (بات ہے کہ) تم کتاب کے بعض احکام کو مانتے ہو اور بعض سے انکار کیےدیتے ہو۔‘‘
جو شخص بعض رسولوں پر تو ایمان لائے اور بعض پر نہ لائے یا رسول اللہﷺکی لائی ہوئی کچھ شریعت کو تو مانے اور کچھ کو نہ مانے تو ایسا شخص حقیقت میں کافر اور اپنی خواہش نفس کا پجاری ہے۔ ان لوگوں کا ان کی تردید کرنا درست نہیںہے، جو یہ کہتے ہیں کہ دین ان تمام اشیاء کو شامل ہے کیونکہ اطاعت رسول در حقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے اور اطاعت رسول کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ہمیں جو حکم دیا ہے، اسے تسلیم کریں اور جس بات سے منع فرمایا ہے، اس سے اجتناب کریں۔ اللہ تعالیٰ کی نسبت سے بھی اطاعت کے یہی معنی ہیں اور اسی کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اللہ وحدہ کے لیے عبادت کو خالص کریں اور کسی کو بھی اس کا شریک نہ بنائیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب