السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور حواکے بارے میں فرمایا ہے:
﴿فَوَسوَسَ لَهُمَا الشَّيطـٰنُ لِيُبدِىَ لَهُما ما وۥرِىَ عَنهُما مِن سَوءٰتِهِما...﴿٢٠﴾... سورةالاعراف
’’ پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے پوشیده تھیں دونوں کے روبرو بے پرده کردے۔‘‘
اس وسوسے کی حقیقت کیا ہے؟ کیا یہ وسوسہ حضرت آدم اور حواسے شیطان کے براہِ راست کلام کی صورت میں تھا؟ کیا وہ انسان جو مرض وسوسہ میں مبتلا ہوگیا مرفوع القلم ہے کیونکہ وسوسہ تو جنون کی ایک قسم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ارشاد باری تعالیٰ:
﴿فَوَسوَسَ لَهُمَا الشَّيطـٰنُ لِيُبدِىَ لَهُما ما وۥرِىَ عَنهُما مِن سَوءٰتِهِما...﴿٢٠﴾... سورةالاعراف
’’ پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے پوشیده تھیں دونوں کے روبرو بے پرده کردے۔‘‘
یعنی شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا اور ان سے زبانی یہ کہا:
﴿فَوَسوَسَ لَهُمَا الشَّيطـٰنُ لِيُبدِىَ لَهُما ما وۥرِىَ عَنهُما مِن سَوءٰتِهِما وَقالَ ما نَهىٰكُما رَبُّكُما عَن هـٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلّا أَن تَكونا مَلَكَينِ أَو تَكونا مِنَ الخـٰلِدينَ ﴿٢٠﴾ وَقاسَمَهُما إِنّى لَكُما لَمِنَ النّـٰصِحينَ ﴿٢١﴾... سورةالاعراف
’’ اور کہنے لگا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا، مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے ہوجاؤ یا کہیں ہمیشہ زنده رہنے والوں میں سے ہوجاؤ (20) اور ان دونوں کے روبرو قسم کھالی کہ یقین جانیئے میں تم دونوں کا خیر خواه ہوں ۔‘‘
یہ کلام، حقیقت اور وسوسہ دونوں پر مبنی ہے، جسے شیطان نے ان دونوں کے دل میں ڈال دیا تھا۔ انسانوں کو جو وسوسے پیش آتے ہیں، یہ اس وقت تک مؤثر نہیں ہوتے، جب تک انسان انہیں شدت سے دور کرتا رہے اور اگر ان کے بارے میں اس سے سوال کیا جائے کہ کیا تو یہ عقیدہ رکھتا ہے؟ تو یہ شدت سے انکار کردے۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس قسم کے وسوسے کی رسول اللہﷺ سے شکایت کی تھی تو آپ نے حکم دیا تھا کہ اس حالت میں اَعُوْذُ بِاللّٰہ پڑھ لیا کرو اور وسوسے سے رک جایا کرو۔ اگر انسان ایسا کرے تو اس کے میلان و رجحان کے بغیر اس کے دل پر طاری ہونے والے وسوسے اس کے لیے نقصان دہ ثابت نہیں ہوتے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب