ہم ایک مجلس میں سورۃ الاعلیٰ کی دو آیات کریمہ نمبر ۱۸، نمبر ۱۹ کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے، جو یہ ہیں:
’’ یہ باتیں پہلی کتابوں میں بھی ہیں(18) (یعنی) ابراہیم اور موسیٰ کی کتابوں میں۔‘‘
سوال یہ ہے کہ سورۃ الاعلیٰ کا سبب نزول کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰکی کتابوں کی بجائے ان کے صحیفوں کا ذکر کیوں کیا ہے؟
بعض مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمپر صحف نازل فرمائے تھے۔ صحف، صحیفہ کی جمع ہے اور صحیفہ اسے کہتے ہیں جس میں حکمتیں، مواعظ اور احکام لکھے ہوں۔ اسی طرح موسیٰپر بھی تورات سے پہلے نازل کیے گئے تھے۔ اگرچہ ان صحائف کی تعداد میں اختلاف ہے، تاہم اللہ تعالیٰ نے سورۃ النجم میں بھی ان کا ذکر فرمایا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿أَم لَم يُنَبَّأ بِما فى صُحُفِ موسىٰ ﴿٣٦﴾ وَإِبرٰهيمَ الَّذى وَفّىٰ ﴿٣٧﴾... سورةالنجم
’’ کیا اسے اس چیز کی خبر نہیں دی گئی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے (36) اور وفادار ابراہیم (علیہ السلام) کے صحیفوں میں تھا ۔‘‘
صحف کا واحد صحیفہ ہے اور صحیفہ کاغذ وغیرہ کے اس صفحہ کو بھی کہتے ہیں، جس میں کلام اللہ لکھا جائے اور اس سے مراد وہ سب کچھ بھی ہوسکتا ہے، جو حضرت ابراہیم اور موسیٰپر نازل ہوا۔ قرآن مجید کی تعریف میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہ لفظ استعمال فرمایا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ (یہ تو) پر عظمت صحیفوں میں (ہے) (13) جو بلند وباﻻ اور پاک صاف ہے۔‘‘
یہ اس وقت کی کیفیت کی طرف اشارہ ہے، جب قرآن مجید ابھی مکمل لکھا ہوا نہیں تھا یا ابھی مکمل نازل ہی نہیں ہوا تھا، شاید یہ مستقبل کے حوالے سے خبر ہو۔ بہرحال صحف کا لفظ کتب کی نسبت خاص ہے لیکن کبھی کبھی یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کے مترادف بھی استعمال ہوتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب