السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿وَالمُطَلَّقـٰتُ يَتَرَبَّصنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلـٰثَةَ قُروءٍ... ﴿٢٢٨﴾... سورة البقرة
تو اس میں قروء سے کیا مراد ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
لغت میں قروء کا لفظ حالت طہارت اور حالت حیض دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس آیت میں یہ لفظ حالت حیض کے لیے استعمال ہوا ہے۔ شارع کے اکثر استعمال اور جمہور صحابہ کے قول کے مطابق یہ لفظ حالت حیض ہی کے لیے استعمال ہوا ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب