السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
درج ذیل آیت کریمہ کے کیا معنی ہیں:
﴿إِنّا عَرَضنَا الأَمانَةَ عَلَى السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ وَالجِبالِ فَأَبَينَ أَن يَحمِلنَها وَأَشفَقنَ مِنها وَحَمَلَهَا الإِنسـٰنُ ۖ إِنَّهُ كانَ ظَلومًا جَهولًا ﴿٧٢﴾... سورة ا لاحزاب
’’ ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے (مگر) انسان نے اسے اٹھا لیا، وه بڑا ہی ﻇالم جاہل ہے۔‘‘
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امانت سے مراد شرعی ذمہ داریاں ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ذمہ داریوں، اوامر و نواہی اور ثواب وعذاب کو ان مخلوقات کے سامنے پیش کیا تو یہ ڈر گئیں اور خوف کھانے لگیں کہ یہ عاجز ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کو برداشت کرنے کی ان میں استطاعت نہ ہوگی، لہٰذا یہ اپنے جمادات بننے پر ہی راضی ہوگئیں اور اگر یہ ان ذمہ داریوں کو قبول کرلیتیں تو یہ بھی ان تمام افعال کی مکلف ہوتیں، جن کا انسان کو مکلف قرار دیا گیا ہے۔(1)
(1)آسان الفاظ میں اس مفہوم کو یوں بھی ادا کیا جاسکتا ہے کہ امانت سے مراد اللہ تعالیٰ کے احکام اور فرائض ہیں، جن کے اٹھانے سے آسمان نے بھی اپنا عجز ظاہر کیا اور زمین اور پہاڑوں نے بھی۔ مگر انسان نے اپنی بساط کو تو دیکھا نہیں اور کہا کہ میں اس بار کو اٹھاؤں گا۔ نادانی سے اس کو اٹھا تو لیا لیکن اٹھاتے ہی اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے لگا، جس کی وجہ سے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مورد عتاب قرار پایا۔ تب اسے سمجھ آئی کہ میں نے بڑی نادانی سے کام لیا ہے اور اپنے حق میں بڑا ظلم کیا ہے اور لگا اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے۔ اس مشت خاک کو دیکھو اور اس کی بساط کو دیکھو اور اس کی جرأت کو دیکھو۔ اللہ تعالیٰ کی امانت کو قبول کیا تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ کمزور بھی تھا اور اس امانت کی عظمت سے ناواقف بھی تھا۔ (مترجم)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب