السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّما يَعمُرُ مَسـٰجِدَ اللَّهِ مَن ءامَنَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ... ﴿١٨﴾... سورة التوبة
اس میں آباد کرنے سے کیا مراد ہے؟ کیا کافروں کے لیے مسجد کی تعمیر میں حصہ لینا جائز ہے؟ کیا عیسائی کارکنوں سے مسجد کے بنانے میں کام لیا جاسکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسجدیں در حقیقت نماز، اطاعت، اعتکاف اور ان تمام بدنی اور قولی عبادات سے آباد ہوتی ہیں، جو ان میں سر انجام دی جائیں۔ گویا اس آیت میں ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے، جو مسجدوں میں مختلف قسم کی عبادات سر انجام دیتے ہیں، نیز ان لوگوں کے لیے قرآن نے یہ شہادت دی ہے کہ وہ ایمان دار ہیں جیسا کہ اس مرفوع حدیث میں بھی ہے، جسے امام ترمذیa نے حسن قرار دیا ہے:
«إِذَا رَأَيْتُمُ الرَّجُلَ يَتَعَاهَدُ الْمَسْجِدَ فَاشْهَدُوا لَهُ بِالإِيمَانِ»جامع الترمذی التفسیر باب ومن سورة التوبة حدیث:802والفظ له
’’ تم جب کسی آدمی کو مسجدوں میں آتے جاتے دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی دو۔‘‘
اس حدیث میں بھی گویا اسی آیت سے استدلال ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے مسجدوں کو آباد کرنے کی نفی فرمائی ہے:
﴿ما كانَ لِلمُشرِكينَ أَن يَعمُروا مَسـٰجِدَ اللَّهِ...﴿١٧﴾... سورةالتوبة
’’مشرکوں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ مسلمانوں کی مسجدوں کو آباد کریں‘‘
مسجدوں کی آبادی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ حصول ثواب کی نیت سے انہیں پاک مال سے تعمیر کیا جائے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے مسجد تعمیر کرنے کی فضیلت کے بارے میں احادیث موجود ہیں۔ مسجدوں کی تعمیر میں مال خرچ کرنا کفار کے لیے مفید اور منفعت بخش نہیں ہوسکتا کیونکہ شرک کی وجہ سے ان کے اعمال رائیگاں ہو جاتے ہیں، البتہ انہوں نے اپنے مال سے کسی مسجد کو بنایا یا اس کی تعمیر میں حصہ لیا ہو تو اس میں نماز پڑھنا جائز ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب